محترمہ گلنار بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍جولائی 2008ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب مربی سلسلہ نے اپنی والدہ محترمہ گلنار بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔ آپ کی وفات 25فروری 2008ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ اور والد محترم عبدالحمید صاحب میں بہت محبت تھی۔ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے۔ ہم نے کبھی انہیں باہم تکرار کرتے بھی نہیں سنا۔ چونکہ دادا جان محترم میاں محمد اسمٰعیل صاحب موضع جھول کے پہلے احمدی اور صدر جماعت بھی تھے اس لئے مہمان کثرت سے اور وقت بے وقت آتے رہتے جن کی خدمت میری والدہ بخوشی بجالاتیں۔ بجلی اور گیس کی سہولت نہ ہونے کے باوجود مہمان نوازی بہت کرتیں- ربوہ آکر بھی یہ روایت قائم رکھی۔ آپ کی وفات پر تعزیت کے لئے آنے والی کچھ اجنبی عورتوں نے بتایا کہ ایک دوپہر انہوں نے پانی پینے کے لئے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا تو امی نے نہ صرف انہیں پانی پلایا بلکہ دوپہر کا کھانا بھی اصرار سے کھلایا۔
آپ میرے والد کی دوسری بیوی تھیں۔ پہلی بیوی سے چار بیٹیاں تھیں جن کے ساتھ امّی نے حقیقی بیٹیوں جیسا سلوک کیا اور انہوں نے بھی والدہ کے احترام میں کمی نہ کی۔ ایک بڑی خوبی ہماری والدہ میں یہ تھی کہ اگر کسی عزیز سے کوئی اَن بن ہو جاتی تو اس کا چرچا بچوں کے سامنے نہ کرتیں۔ بلکہ بچوں کو ان کے گھروں میں بھجواتیں، پھر جلد صلح کی طرف مائل ہوتیں، ناراضگی کو لمبا نہ کرتیں اور ناراضگی ختم کرکے کبھی اس کا ذکر نہ کرتیں۔
آپ کو بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بہت خیال تھا۔ سلسلہ کے وقار کا بہت خیال رکھتیں۔ جماعتی رسائل و اخبارات کا مطالعہ خود بھی کرتیں اور ہم سے بھی کرواتیں۔ بچوں کو تمام دینی پروگراموں میں شامل کرتیں۔ آپ سرتاپا دعا تھیں اور اللہ تعالیٰ اور انبیاء و خلفاء کی محبت سے سرشار تھیں۔ شب بیدار تھیں۔ ہر نماز میں لمبی قراء ت اور لمبے سجدے ہوتے جن میں گریہ و زاری کرتیں۔ تلاوت قرآن روزانہ کا معمول تھا۔ اس میں سفر یا حضر اور بیماری کوئی بھی حارج نہ ہو سکتا۔ بیماری یا تکان کے باوجود بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرتیں۔ بتایا کرتیں کہ جب سے مَیں نے سنا ہے کہ آنحضورﷺ کھڑے ہوکر اتنی لمبی نماز ادا فرماتے تھے کہ پاؤں سوج جاتے تھے، تب سے مَیں کبھی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھتی۔
حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی آپ کا جواب نہ تھا۔ کسی سائل کو خالی نہ جانے دیتیں۔ شفقت ہر ایک پر تھی اور ہر ایک کے مقام اور مرتبہ کا خیال تھا۔ چندوں کی ادائیگی میں باقاعدگی تھی۔ بچوں سے بھی اس بارہ میں پوچھتی رہتیں۔
خلافت سے آپ کو انتہائی عقیدت اور پیار تھا ۔ خطبات کو انتہائی توجہ اور احترام سے سنتیں۔ بہت متوکّل علی اللہ اور راضی برضا تھیں۔ جب میں نے جامعہ میں داخلہ لینا تھا تو والد کی وفات کے بعد گھریلو حالات کی وجہ سے کسی بزرگ نے مشورہ دیا کہ مجھے کسی کام پر لگادیں تاکہ گھر یلو مشکلات دُور ہوسکیں اور جامعہ میں بعد میں کسی دوسرے بچہ کو بھیج دیں۔ امی نے جواب دیا کہ ہم نے اسے خدا کے دین کے لئے وقف کیا ہے اس لئے یہی جامعہ جائے گا اور گھریلو مشکلات کا میرا خدا خود ہی کوئی حل نکالے گا۔
1997ء میں جب ایک مذہبی کیس کے نتیجہ میں مجھے عمر قید ہوئی تو غیرازجماعت رشتہ دار خواتین کے افسوس کا اظہار کرنے پر کہتیں میرا بیٹا تو اسلام کی خاطر سلاخوں کے پیچھے گیا ہے اور مجھے اس پر خوشی اور فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قربانی کے لئے چنا ہے۔ گھر میں میری اہلیہ اور بچوں کی بھی ڈھارس بندھاتیں اور ملاقات کے لئے جیل آتیں تو مجھے بھی حوصلہ اور ہمت سے یہ وقت گزارنے کی تلقین کرتیں۔ کسی بھی لمحے میں نے آپ کے چہرہ پر فکر اور غم کے سائے نہ دیکھے۔
آپ بہت بہادر خاتون تھیں۔ دو تین بار گھر میں زہریلا سانپ نکل آیا یا کبھی چور آگیا تو آپ بہادری سے مقابلہ کرتیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار صدمات کو حوصلہ سے برداشت کیا۔ خاوند، ایک جو ان شادی شدہ بیٹے اور ایک جوان بیٹی کی وفات۔ ہمیشہ انّاللہ پڑھا۔ بلکہ ابو کی وفات پر تو ہم سب بہن بھائیوں سے کہا کہ تمہارا والد فوت ہوا ہے مگر تمہارا خدا زندہ ہے، اگر تم اس کے فرمانبرداررہو گے تو وہ ہمیشہ تمہارا ہو گا۔
آپ میں دکھاوا اور اسراف نہ تھا۔ سادہ دل، سادہ مزاج اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ہر حال میں خوش رہنا، اور عسر یسر میں وقار کے ساتھ وقت گزارنا آپ کی خوبی اور ہنر مندی تھی۔ تنگی ترشی میں شکایت نہ کرتیں بلکہ سب بچوں کو پڑھایا، سب کی شادیاں کیں لیکن کسی کی شادی پر بھی قرض نہ لیا۔ جہاں ایک دفعہ گئیں بات پکی کر آئیں اور بغیر لگی لپٹی رکھے تمام حالات بتا آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب اپنے گھروں میں خوش و خرم ہیں اور قرض کے وبال سے بھی بچ گئے۔ قرآن کریم کا یہ قول ہمارے حق میں بھی پورا ہوا کہ اگر تم سچ سے کام لوگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوریوں پر پردہ ڈال دے گا اور تمہارے کاموں کی وہ خود اصلاح کردے گا۔
امی جان کی پانچ بہوئیں ہیں۔ آپ پانچوں سے خوش تھیں اور پانچوں آپ سے خوش تھیں۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ آپ اُن کے پاس رہیں۔ سب کہتی ہیں کہ اللہ ایسی ساس سب کو دے۔ ہم کہتے ہیں اللہ ایسی والدہ سب کو دے۔