محترمہ Claire Clement کے قبولِ اسلام کی مختصر داستان

جماعت احمدیہ کینیڈا کے انگریزی ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ نومبر و دسمبر 2011ء میں محترمہ Claire Clement کے قبولِ اسلام کی خودنوشت مختصر داستان شامل اشاعت ہے۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ مَیں کینیڈا کے صوبہ Nova Scotia کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی۔ میرے والد سِول انجینئر تھے اور والدہ کا کام گھر میں بچوں کی پرورش کرنا ہی تھا۔ اپنے گھرانہ کے پانچ بچوں میں سے میرا نمبر چوتھا ہے۔ ابھی میری عمر صرف تین سال تھی کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔ پھر میری پرورش مختلف خواتین کے زیرسایہ ہوتی رہی تا آنکہ میرے والد نے ایک نہایت ذمہ دار اور اچھی خاتون سے دوسری شادی کرلی۔ اُس وقت میری عمر آٹھ برس تھی۔ ہم بچوں کو اطاعت، اچھے اخلاق، صفائی ستھرائی اور باہمی محبت و نرم مزاجی کا درس دیا گیا۔
چھ سات سال کی عمر میں مجھے پہلی دعا سکھائی گئی اور پھر مَیں نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ’سنڈے سکول‘ اور بعدازاں باقاعدہ چرچ جانا بھی شروع کردیا۔ میری نانی ہمیں بائبل سے کہانیاں سناتی تھیں جن میں خدا، مسیح اور روح القدس کے حوالہ سے ذکر ہوتا۔ میرے والد کو اگرچہ مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا تاہم زندگی گزارنے کے لئے بہترین بنیادی اخلاق ہمیں سکھانے پر وہ ہمیشہ زور دیتے رہے۔ کبھی مجھے احساس ہوتا کہ وہ ہماری ماں کی موت پر خدا سے ناراض ہیں۔ لیکن بارہ سال کی عمر میں مَیں نے اپنی مرضی سے بپتسمہ لے لیا اور اس طرح  Baptist چرچ کی رُکن بن گئی۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے مزید تعلیم کے لئے اپنے گاؤں سے ہیلی فیکس آنا پڑا۔ یہ جنگ عظیم دوم کے آغاز سے کچھ ہی عرصہ قبل کا زمانہ تھا۔ہیلی فیکس چونکہ کینیڈا کی اہم بندرگاہ تھی چنانچہ دنیابھر سے یہاں فوجیوں سے بھرے ہوئے سمندری جہازوں کی آمدورفت سے خوب رونق رہنے لگی۔اسی اثناء میں میری ملاقات کینیڈین بحریہ کے ایک فوجی سے ہوئی۔ چند ملاقاتوں کے بعد ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اُس کا تعلق فرنچ بولنے والی ایسی فیملی سے تھا جو رومن کیتھولک تھے اور کسی دوسرے عقیدہ کے حامل فرد سے شادی پر رضامند نہیں ہوسکتے تھے۔ تاہم ہم دونوں چونکہ اُس عمر میں تھے جہاں مذہب سے زیادہ محبت پر یقین کیا جاتا تھا اور میرے والد کے لئے بھی مذہب بے معنی چیز تھا چنانچہ مَیں کیتھولک فرقہ میں شامل ہوگئی۔ اس طرح ہماری شادی ہوگئی۔
جنگ ختم ہوئی تو ہم دونوں ہیملٹن (اونٹاریو) منتقل ہوگئے۔ ہم دونوں نے ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی جو فوجیوں اور اُن کے اہل خانہ کے لئے بسہولت تعلیم مہیا کیا کرتی تھی۔ ہم دونوں نے 1950ء میں گریجوایشن کرلی۔ مَیں چونکہ تدریس کے پیشہ سے وابستہ تھی چنانچہ ہم مختلف شہروں میں مقیم رہے۔ اس دوران چرچ کے ساتھ میری وابستگی مزید مستحکم ہوتی چلی گئی۔ ایک موقع پر مَیں کیتھولک وومنز لیگ کی منتخب صدر بھی تھی۔ دورانِ تعلیم میرے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوگئی تھی۔ بعدازاں دو مزید بچے پیدا ہوئے۔
میرے خاوند کی ریٹائرمنٹ ہوئی تو ہم مستقل طور پر ہیملٹن میں آباد ہوگئے اور یہاں ایک چرچ میں خدمات کے حوالہ سے روزانہ اپنے اوقات وقف کرنے لگے۔ چرچ کے قریب ہی ایک ریستوران تھا۔ جہاں ہم روزانہ کافی پینے جایا کرتے تھے۔ زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ اچانک خوفناک تبدیلیوں کا شکار ہوگئی۔2007ء میں میرے خاوند کی چند دن ہسپتال میں بیماری کے بعد وفات ہوگئی۔ یہ ایسا صدمہ تھا جسے مَیں خدا کی رضا سمجھ کر قبول کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ لیکن میرے خاوند کی بیماری کے دوران ہسپتال میں میرے بیٹے کو ایسی انفیکشن ہوگئی کہ صرف دو روز کے وقفہ کے بعد اُس کی بھی اچانک وفات ہوگئی۔ اس کے دو ہفتے بعد میرے داماد کا اکلوتا بیٹا کار کے حادثہ میں مارا گیا جس کے چند ہی دن بعد میرا داماد حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگیا۔
ان پے در پے صدمات نے میری فیملی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور مَیں خدا سے ناراض ہوگئی۔ مَیں نے پادری کو بھی بتایا کہ مَیں اپنی اِس حالت کو اب شاید کبھی بھی بدل نہیں سکوں گی۔ مَیں نے اپنا نفسیاتی علاج بھی کروایا لیکن میرے دل میں خالی پَن کے احساس میں کوئی کمی نہ آئی۔
مَیں اکثر اُسی ریستوران میں جایا کرتی جہاں کسی زمانہ میں اپنے خاوند کے ساتھ باقاعدہ کافی پیا کرتی تھی۔ لیکن وہاں کے ماحول میں ایک تبدیلی اس طرح آئی کہ ریستوران کے مینیجر نے (جس کا نام آدم تھا) اسلام قبول کرلیا اور اب جب مَیں وہاں جاتی تو وہ میری میز کے پاس کھڑے ہوکر اپنے نئے عقائد کو جوش و خروش سے بیان کرتا۔ یہی وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے آدم کے ذریعہ اسلام کے نُور سے متعارف کروایا۔ آدم نے مجھے ایک روز بتایا کہ چرچ کے بالکل سامنے ریستوران ہونے کے باوجود بھی وہ آج تک چرچ میں کبھی نہیں گیا۔ تب مَیں نے اُسے دعوت دی اور وہ میرے ساتھ پہلی بار چرچ آیا جہاں کسی مرنے والے کی آخری رسومات کی ادائیگی کی تیاری ہورہی تھی۔
اُس کے بعد آدم کبھی کبھار صبح کی سروس کے لئے چرچ آنے لگا۔ چند دن کے بعد اُس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ تو میرے کہنے پر کئی بار چرچ آچکا ہے تو کیا مَیں بھی اُس کے ساتھ مسجد جاسکتی ہوں؟ چنانچہ اگلے ہی جمعہ کی دوپہر مَیں اُس کے ہمراہ مسجد چلی گئی۔ یہ احمدیہ مسجد تھی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اُس نے میرے لئے قرآن کریم کا ایک نسخہ خریدا اور مجھے دیتے ہوئے اُسے پڑھنے کی تاکید کرنے لگا۔ اُس نے مجھے کچھ لٹریچر بھی خرید کردیا جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ حیات مبارکہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کا تعارف نیز کئی دیگر کتب بھی تھیں۔ ہم اُس دن مسجد کے مردانہ حصّہ میں بیٹھے رہے۔ بعد میں وہ ایک خوبصورت مسلم لڑکی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا اور میرا تعارف اُس لڑکی کی فیملی سے کروایا تو احمدیہ کمیونٹی میں پھیلی ہوئی اسلام سے محبت کی خوشبو کا احساس مجھے بھی ہونے لگا۔
ایک روز آدمؔ مجھے کہنے لگا ’’میرا خیال ہے کہ یا تو تم اسلام قبول کرلو گی یا پھر مَیں عیسائی ہوجاؤں گا‘‘۔ اُس کی آنکھوں میں روشن پیغام کو مَیں سمجھ چکی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ مذکورہ دونوں باتوں میں سے کونسی بات پوری ہونے جارہی ہے۔ وہ میرے لئے ایک رہنما تھا۔ ہم نے لمبی سیر کرتے ہوئے اسلام کے بارہ میں تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا۔ کئی بار ہم نے اُس کے ریستوران میں رات کا کھانا کھایا اور وہ مسلسل مجھے اسلام کی تعلیمات اور اس کی صداقت سے متعلق قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
آنحضور ﷺکی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کرنے سے مجھے خداتعالیٰ کے ساتھ ایک ایسے تعلق کا احساس ہونے لگا جس میں بھرپور خوشی اور گرمجوشی تھی۔ اپنے سابقہ غموں کے پہاڑ کو اپنی ذات سے مسلسل دُور ہوتے ہوئے دیکھنا ایسا تجربہ تھا جس کے نتیجہ میں مَیں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا اور 19ستمبر 2009ء کو بیعت کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔ مَیں آج بھی اپنے اُسی سفر پر گامزن ہوں جو مجھے اللہ تعالیٰ کا ایسا قرب عطا کردے جو ہماری منزل مقصود ہونا چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں