محترم ابو المنیر نورالحق صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍جون 2005ء میں مکرم پروفیسر راجا نصر اللہ خان صاحب کے قلم سے محترم ابوالمنیر نورالحق صاحب کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترم مولانا ابوالمنیر صاحب بیان فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہمارے گھر کے حالات سازگار نہیں تھے اور والد صاحب مجھے تعلیم بھی نہیں دلواسکتے تھے، جب ہم لوگ قادیان آگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے دن بدل دیئے‘‘۔ چنانچہ قادیان میں آپ نے مدرسہ احمدیہ اور پھر جامعہ احمدیہ میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ آپ بہت ہونہار اور لائق طالب علم تھے اور امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے تھے۔ 1938ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور یونیورسٹی میں دوم آئے۔ 1938ء میں ہی آپ نے زندگی وقف کی۔
آپ کی لکھائی بہت اچھی تھی اور حضرت مصلح موعودؓ کی زیرنگرانی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضور جو کام دیتے آپ بڑی محنت سے اسے نہایت خوشخط لکھ کر بروقت حضور کی خدمت میں پیش کر دیتے۔ حضورؓ آپ سے بہت شفقت فرماتے چنانچہ حضورؓ نے نہ صرف آپ کے لئے رشتہ کا انتخاب خود فرمایا اور شادی کے جملہ اخراجات برداشت فرمائے بلکہ آپ کی دعوت ولیمہ بھی 23 دسمبر 1944ء کو قصر خلافت میں ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد آپ ناظر انخلاء و آبادی مقرر ہوئے۔ پھر بیس سال تک بطور استاد جامعہ احمدیہ خدمت کی توفیق پائی۔ جب ادارۃالمصنفین کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو اس کامینیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ وقف جدید کے آغاز سے ہی آپ اس کے بھی ممبر مقرر ہوئے اور آخری لمحات تک اس سے وابستہ رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ (5 جنوری 1996ء) میں آپ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم ہمیشہ مالی معاملات میں حضرت مولوی صاحب کو ضرور مقرر کیا کرتے تھے کیونکہ یقین تھا کہ یہ مالی نگرانی میں بہت اعلیٰ رتبہ رکھتے ہیں۔ یقین ہوتا تھا کہ کسی غلط خرچ کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس لئے امانتوں پر دستخطوں کے لئے مولوی صاحب کا نام ضروری تھا اور اکاؤنٹس کو دیکھنے کے بعد جب تسلی کر لیتے تھے کہ درست خرچ ہورہا ہے، تب دستخط کیا کرتے تھے‘‘۔
تفسیر کبیر جو کہ قرآنی علوم کا ایک عظیم خزانہ ہے۔ اس کے متعلق مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کاجو علم مجھے ودیعت ہوا ہے اس کا نصف بھی تفسیر کبیر میں بیان نہیں ہوسکا۔
تفسیر صغیر کی پہلی اشاعت کے سلسلہ میں 1957ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے مولانا ابوالمنیر صاحب کو اپنے دست مبارک سے تین سو روپے پر مشتمل انعامی تھیلی عطا فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمہ کے سلسلہ میں بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی۔
آخری سالوں میں دل کے عارضے کی وجہ سے آپ دو تین بار فضل عمر ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہوکر گھر آجاتے تھے۔ آخری حملہ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 30 دسمبر 1995ء کو اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگئے۔