انٹرویو: محترم السیّد محمد حلمی الشافعی صاحب
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
(محمود احمد ملک)
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1996ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مذکورہ بالا الہام نہایت شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے اور کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرتا جب احمدیت نے کسی نئے ملک اور نئی بستی میں نفوذ نہ کیا ہو۔ اور یہ بھی کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مختلف قوموں کے لاکھوں افراد آج مسیح وقت کی غلامی میں مسند خلافت پر متمکّن ہونے والے وجود کے قدموں میں بیٹھ کر اسلام کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی چند فدائین کے تعارف کے مقصد سے ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ وہ اصحاب جنہوں نے خود حق کو قبول کیا اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانے کے لئے قابل قدر کوشش فرمارہے ہیں انہیں ہم اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
اس شمارہ میں محترم السیّد محمد حلمی الشافعی صاحب آف مصر کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
آپ 21 مارچ 1929ء کو قاہرہ (مصر) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی تھے اور کٹر وہابیانہ مزاج رکھتے تھے۔ محترم حلمی صاحب بھی ایسے ہی نظریات کے ساتھ جوان ہوئے لیکن نہایت وسیع مذہبی مطالعہ رکھتے تھے۔ فیکلٹی آف سائنس قاہرہ یونیورسٹی سے B.Sc. کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد الازہر یونیورسٹی میں حساب اور فزکس کے استاد ہوگئے۔ 6 سال کی ملازمت کے بعد پٹرولیم انجینئرنگ کا دوسالہ کورس مکمل کیا اور پھر ملازمت کے سلسلہ میں متعدد عرب ممالک میں مقیم رہے جن میں سعودی عرب، لیبیا، الجیریا، عراق، کویت، متحدہ عرب امارت اور سوڈان شامل ہیں۔ 1965ء میں آپ کی ملاقات ایک مخلص اور فدائی مصری عرب احمدی محترم مصطفیٰ ثابت صاحب سے ہوئی جن کی دو سال تک مسلسل تبلیغی کوششوں سے آپ کے شکوک دُور ہوئے اور اس طرح قبول احمدیت کی سعادت 1967ء میں حاصل کی۔
محترم حلمی الشافعی صاحب کے والد محترم چونکہ مولوی تھے اس لئے انہوں نے اگرچہ ان کے اس فیصلہ کو ناپسند تو کیا لیکن چونکہ وہ آپ کے اعلیٰ کردار سے متاثر تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی پاکیزہ تحریر سے بھی لطف حاصل کر چکے تھے اس لئے زیادہ مخالفت نہیں کی۔ دیگر رشتہ دار بھی اگرچہ مخالفت کرتے تھے لیکن مذہبی معاملات میں فتویٰ آپ ہی سے لیا کرتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں آپ نے بتایا کہ آپ کے قبول احمدیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہابی فرقہ کے لوگ اسلام اور توحید کے نام پر غیر اسلامی حرکات کرتے ہیں اور دراصل ان کے ایمان کی مثال چھلکے کی سی ہے جبکہ احمدیت کی تعلیم اسلام کے مغز کو پیش کرتی ہے۔
1970ء میں آپ کو پہلی بار ربوہ اور قادیان جانے کی توفیق ملی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کی سعادت بھی حاصل کی۔ اس قیام کے دوران سرینگر (کشمیر) بھی گئے اور حضرت مسیح ناصری ؑ کی قبر کی زیارت کی۔
1986ء میں آپ نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کردی۔ 1986ء سے 1994ء تک آپ بحیثیت امیر جماعت احمدیہ مصر خدمات سر انجام دیتے رہے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر برطانیہ تشریف لے آئے۔ آجکل اسلام آباد (برطانیہ) میں رہائش پذیر ہو کر خدمت اسلام میں مصروف ہیں۔ بعض کتب کے عربی زبان میں ترجمہ کرنے کے کام کے علاوہ آپ اس وقت عربک ڈیسک کے انچارج ہیں اور عربی زبان میں طبع ہونے والے ماہنامہ ’’التقویٰ‘‘ کے مدیر کے فرائض بھی بجا لارہے ہیں۔ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ناظرین عرب بھائیوں کے لئے پیش کئے جانے والے پروگرام ’’لقاء مع العرب‘‘ کے حوالے سے بھی آپ سے واقف ہیں۔ عرب بھائیوں کو پیغام حق پہنچانے کے لئے حضور رحمہ اللہ کے ارشاد پر آپ نے اب تک کئی ممالک کے دورہ جات بھی کئے ہیں جن میں یوگنڈا، مالی، ارجنٹائن، بیلجئیم، ہالینڈ، جرمنی اور بعض عرب ممالک شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں آپ نے خدّام کو یہ نصیحت کی کہ وہ حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کو غور سے سنیں کیونکہ یہ ان کی روحانی ترقی کے لئے بہت ضروری ہیں اور یہی اسلام کا مغز ہیں۔