محترم الطاف حسین خانصاحب

’’اودے پور کٹیا‘‘ ضلع شاہجہانپور (یوپی۔ بھارت) کے رہنے والے محترم الطاف حسین خانصاحب 1896ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کو کتب جمع کرنے کا بہت شوق تھا اور وہ اُس دور کے لحاظ سے پڑھے لکھے آدمی سمجھے جاتے تھے۔ اُن کی لائبریری میں حضرت مسیح موعودؑـ کی کتب ’’حقیقتۃالوحی‘‘ اور ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ بھی شامل تھیں۔ الطاف خانصاحب کو بھی کتب بینی کا شوق ورثہ میں ملا۔ جب آپ نے ’’حقیقۃالوحی‘‘ کا مطالعہ کیا تو اتنے متاثر ہوئے کہ کتاب کے مصنّف کے حالات معلوم کرنے کی فکر کرنے لگے۔ یہ اُن کو معلوم ہوچکا تھا کہ مصنّف نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ اسی جستجو میں آپ شاہجہانپور گئے جہاں سے معلوم ہوا کہ یہاں ایک جماعت ہے جسے لوگ قادیانی کہتے ہیں۔ چنانچہ آپ حاجی عبدالقدیر صاحب کے پاس گئے جن کے شاہجہان پور میں چونا، صابن اور کوئلہ کے کارخانے تھے۔ اُن سے آپ کو حضرت اقدس کے دعویٰ مہدویت و مسیحیت کا تفصیلی علم ہوا اور اُن کے مشورہ سے آپ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے پاس پہنچے اور پہلی ہی ملاقات میں تسلّی پاکر 1918ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ جب آپ کے گاؤں میں آپ کے قبول احمدیت کا علم ہوا تو آپ کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا۔ جب مخالفت اپنی انتہا پر پہنچ گئی تو آپ نے حضرت حافظ صاحب سے سارا حال بیان کیا اور اُن کے مشورہ سے حاجی عبدالقدیر صاحب کے بیٹے کے پاس چلے گئے جو جنگلات کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ وہاں پانچ سال آپ نے بہت محنت سے کام کیا اور اپنی تنخواہ کا ایک حصہ باقاعدگی سے اپنی والدہ کو بھجواتے رہے۔ اس عرصہ کے دوران آپکی اہلیہ اپنے بیٹے کے ہمراہ اپنے والد کے ہاں مقیم رہیں۔ اتنا لمبا عرصہ جدائی کے نتیجہ میں آپ بیمار پڑ گئے۔ اس وقت آپ کی بیوی کے ماموں زاد بھائی کو خواب کے ذریعہ آپ کی بیماری کی خبر دی گئی اور خبر لینے کی ہدایت ہوئی۔ چنانچہ وہ آپ کا پتہ معلوم کرتے ہوئے جنگل میں پہنچے اور آپ کو اپنے ہمراہ لے جاکر آپ کے سسر کے ہاں پہنچا دیا جہاں علاج معالجہ کے بعد آپ صحت یاب ہوگئے۔ جب آپ نے اپنی بیوی کو اپنے ہمراہ لے جانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ کی خوشدامن اور نسبتی بہنوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنی بیٹی کو کسی قادیانی کے ساتھ نہیں بھیجیں گے۔ لیکن آپ کے خسر نے آپ کا ساتھ دیا اور خود آپ کے لئے سواری کا انتظام کیا اور ضرورت کی کچھ اشیاء بھی ساتھ دیں۔ چنانچہ آپ اپنی بیوی کے ہمراہ اودے پور کٹیا پہنچ گئے اور وہاں کاشتکاری کا کام شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ مخالفت کا زور کم ہوگیا۔
محترم خانصاحب صوم و صلوٰۃ کے پابند اور دعوت الی اللہ کا جوش رکھنے والے تھے۔ آپ کی نیکی نے رفتہ رفتہ دوسروں پر اثر کرنا شروع کیا اور جلد ہی آپ کے ایک چچازاد بھائی عزیز خان صاحب نے مع اہل و عیال بیعت کرلی جس سے آپ کو بہت تقویت ملی۔ آپ 1921ء سے 1946ء تک کے جلسہ سالانہ پر باقاعدہ قادیان جاتے رہے۔ آپ نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ کی شادی بھی قادیان میں کی اور جب آپ کے بیٹے نے کاشتکاری کا کام سنبھال لیا تو آپ ہمہ وقتی داعی الی اللہ بن گئے اور سارا دن گھوڑے پر سوار ہوکر اسی کام میں مصروف رہتے۔ ایک زیر تبلیغ ہندو دوست کو مسلسل بارہ سال تک قادیان جلسہ پر لے جاتے رہے اور آخر تیرھویں سال وہ احمدی ہوگئے اور پھر تمام عمر خدمت دین میں مصروف رہے۔
محترم خانصاحب جب دعوت الی اللہ کے لئے گاؤں سے باہر جاتے تو اپنا کھانا ساتھ لے جاتے اور کسی پر بوجھ نہ بنتے۔ بڑے نڈر اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ ایک مرتبہ آپ اور عزیز خانصاحب دعوت الی اللہ کے لئے ضلع ییسلپور کے ایک گاؤں میں گئے تو غیراحمدی مولویوں نے دونوں کو ایک کمرہ میں بند کرکے باہر سے تالا لگادیا۔ رات کو آپ کے ایک دوست جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے، واپس اپنے گاؤں ضلع ییسل پور پہنچے تو تالا توڑ کر دونوں کو آزاد کیا اور انہوں نے پھر اگلے روز ایک جلسہ کا انتظام بھی کیا جس میں آپ کو پیغام حق پہنچانے کا موقع ملا۔
الطاف خانصاحب نے تین شادیاں کیں جن سے 5بیٹے اور 4بیٹیاں ہوئیں۔ آپ نے قادیان میں مکان بھی تعمیر کروایا اور وہاں سکونت اختیار کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ پہلے لاہور اور پھر سیالکوٹ منتقل ہوگئے لیکن جلد ہی واپس اودے پور کٹیا (بھارت) چلے گئے۔ 1950ء میں وہاں فسادات کے نتیجہ میں آپ کا گھربار لُوٹ لیا گیا تو کچھ عرصہ بعد آپ دوبارہ پاکستان آگئے اور ربوہ آکر رہائش پذیر ہوگئے۔
آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں بہت سے ہندو اور غیراحمدی بھی احمدیت میں داخل ہوئے۔ جب آپ پاکستان آئے تو اودے پور کٹیا میں آپکے ذریعہ احمدی ہونے والوں کی کُل تعداد 90؍ تھی جو نو خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے وہاں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی جس کے میناروں کیلئے رقم آپ کی بڑی بیوی نے اپنی مہر کی رقم میں سے پیش کی۔
محترم الطاف خانصاحب نے 1969ء میں ربوہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کا تفصیلی ذکر خیر مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مارچ 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں