محترم اکبر تشاکا احمدی صاحب کا قبول اسلام
مجلس انصاراللہ امریکہ کے سہ ماہی رسالہ ’’النحل‘‘ بہار 1997ء میں محترم اکبر تشاکا احمدی صاحب اپنی قبولِ اسلام کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں 11؍ اگست 1939ء کو اٹلانٹک سٹی کے ایک عیسائی گھرانہ میں پیدا ہوا اور اٹلانٹک سٹی میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی۔
1972ء کا واقعہ ہے کہ میں ایک کتب فروش کے پاس ’’صوفی ازم‘‘ کے بارہ میں چند کتب خرید رہا تھا جب میری نظر کچھ دور رکھی ہوئی ایک کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پر پڑی جس پر تحریر تھا کہ یہ کتاب احمدیہ مسلم جماعت کے بانی کی تصنیف ہے۔ چونکہ میں نے احمدیت کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا اس لئے میرا خیال تھا کہ یہ کسی بہت پرانے مذہب کا نام ہے۔ جب میں نے کتاب کھول کر دیکھی تو اندر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تصویر چسپاں تھی۔ تصویر دیکھ کر میں مبہوت ہوگیا کیونکہ میری نظر سے اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا شخص نہیں گزرا تھا جس کی تصویر اس کی روحانیت کی ایسی وضاحت کے ساتھ ترجمانی کرتی ہو۔ جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو گویا ایک قیمتی خزانہ مجھے حاصل ہوگیا اور میرے پاس موجود اسلام کے بارہ میں تمام کتب اس کے مقابلے میں ہیچ محسوس ہوئیں۔ چنانچہ میں نے کتاب پر دیئے گئے پتہ (احمدیہ مشن واشنگٹن ڈی۔سی) پرخط لکھ کر کتب کی فہرست منگوائی ۔ فہرست میں بیشمار کتب دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی خصوصاً حضرت مسیحؑ کے بارے میں کتب کی تفصیل پڑھ کر۔
پھر مجھے پتہ چلا کہ نیویارک میں بھی ایک مسجد ہے چنانچہ میں واشنگٹن خط و کتابت کرنے کے بجائے ایک جمعہ کے روز مسجد چلا گیا۔ لیکن چونکہ مسجد کا پورا پتہ موجود نہیں تھا اس لئے اسی گلی میں باوجود تلاش کے نماز جمعہ سے قبل مسجد میں نہ پہنچ سکا ۔ جب میں نے ایک جگہ سے بہت سے لوگ نکلتے ہوئے دیکھے تو میں نے ان کے پاس پہنچ کر سلام کیا اور کتب خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے مجھے بڑی محبت سے خوش آمدید کہا اور کتب خریدنے میں میری نہایت عمدگی سے مدد کی۔
جب میں نے بعض کتب پسند کرکے خرید لیں تو برادرم عمر بلال ابراہیم نے ایک کتاب مجھے دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو وہ میرے لئے خرید رہے ہیں۔ ان کی اس بات نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ وہ کتاب حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف تھی ’’اسلام اور دیگر مذاہب کا موازنہ‘‘۔ اور اس کتاب کو پڑھ کر میں احمدیت کی سچائی اور حسن کو قبول کئے بغیر نہ رہ سکا۔ جب میں دوبارہ مسجد گیا تو وہاں برادر نورالدین عبداللطیف سے ملاقات ہوئی جو ایک چلتی پھرتی لائبریری تھے۔ انہوں نے مجھے کئی کتب عاریتہ دیں جن کو پڑھنے کے بعد جلد ہی بیعت کرکے میں جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوگیا۔ یہ بات اہم ہے کہ تحقیق کرنے والوں کے لئے جماعت احمدیہ کا طرز عمل نہایت ہمدردانہ اور سہل ہے۔