محترم بریگیڈیر سید نصیر احمدشاہ صاحب

حضرت ڈاکٹر سید ولائت شاہ صاحب نے 1899ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی اور پھر 1906ء میں قادیان حاضر ہوکر زیارت کی سعادت پائی۔ چونکہ آپ کا قیام زیادہ تر مشرقی افریقہ میں رہا اس لئے آپ کے پانچوں بیٹوں نے قادیان کے بورڈنگ ہاؤس میں رہ کر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے محترم سید نصیر احمد شاہ صاحب سکول کے ایک ذہین طالبعلم تھے جومیٹرک تک سکول میں اول آتے رہے۔ اور بعد میں انہوں نے احمدیہ ہوسٹل لاہور میں مقیم رہ کر اپنی تعلیم جاری رکھی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔اے کیا۔ 1943ء میں آپ فوج میں شامل ہوگئے اور 1973ء میں بریگیڈیر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ پھر چھ سال تک سول سروس میں رہے اور جائنٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آپ کا ذکر خیر آپ کی صاحبزادی مکرمہ مسز نجمہ منصور صاحبہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍ جنوری 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔
محترم بریگیڈیر سید نصیر احمد شاہ صاحب فوج کی جس یونٹ میں بھی رہے برملا اپنے احمدی ہونے کا اظہار کیا کرتے اور اس بات کابھی کہ آپ کی اہلیہ پردہ کرتی ہیں۔ چونکہ آپ اپنا کام دیانتداری اور محنت سے سرانجام دیتے تھے اس لئے کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ جب جنرل ہیڈ کوارٹر میں زمینوں کی الاٹمنٹ کا بورڈ بنا تو باوجود اس کے کہ آپ متعلقہ محکمہ میں نہیں تھے افسران بالا نے آپکی دیانتداری کی وجہ سے آپ کو بورڈ کا صدر بنایا۔ مارشل لاء کے دور میں بھی آپ نے بڑی ایمانداری سے کام کیا اور رشوت کی ہر پیشکش کو ٹھکرادیا۔ آپ موصی تھے اور حصہ وصیت ہمیشہ تنخواہ ملتے ہی ادا کردیتے۔ ہرتحریک میں حصہ لیتے اور وعدہ کرتے ہی ادائیگی بھی کردیتے تھے۔ تحریک جدید کے دفتر اول کے خود بھی مجاہد تھے اور اپنے والد محترم کی طرف سے بھی چندہ دیا کرتے تھے۔ خلفاء سلسلہ سے گہری عقیدت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد حضورؓ کی تقاریر کے ٹیپ سنتے تو آنسو بہنے لگتے اور ضبط نہ رہتا کہ پوری تقریرسُن سکیں۔
محترم شاہ صاحب چونکہ علی الاعلان خود کو احمدی کہتے تھے اسلئے ہمیشہ یہی کوشش کرتے کہ آپ کا کردار دوسروں سے ممتاز رہے۔جماعتی کاموں میں حتی المقدور حصہ لیتے اور انگریزی اخبارات میں خط لکھ کر احمدیت کا نقطہ نظر پیش کیا کرتے۔ طبیعت میں مزاح بھی تھا۔ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ جب افریقہ کے دورے سے واپس آئے تو لاہور ایرپورٹ پر جماعت کے دوستوں کا ہجوم تھا۔ ہدایت تھی کہ مصافحہ نہیں کرنا تاہم حضور خود بچوں کو اٹھاکر پیار کرلیتے۔ محترم شاہ صاحب کا حضورؒ سے ملنے کو بہت جی چاہ رہا تھا۔ آخر سوچ کر حضورؒ سے عرض کیا کاش ہم بھی بچے ہوتے۔ اس پر حضورؒ نے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔
محترم شاہ صاحب صبح کی سیر باقاعدگی سے کرتے اور اس دوران قرآن کریم پڑھتے رہتے۔ صبح تلاوت کلام پاک اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریر پڑھنے کے بعد اخبار وغیرہ پڑھتے۔ نیا سال شروع ہوتا تو یہ جائزہ بھی لیتے کہ گزشتہ سال میں کوئی دوست عزیز روٹھ تو نہیں گیا۔ اگر ایسا ہوا ہو تو فوراً معافی کا خط لکھ دیتے اور اس کے نتیجہ میں روٹھا ہوا پہلے سے زیادہ قریب ہوجاتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں