محترم بشیرالدین الہ دین صاحب
محترم سیٹھ ابراہیم بھائی الہ دین صاحب کو خلافت ثانیہ کے دور میں قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی تھی۔ 30؍جنوری 1922ء کو آپ کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام حضرت مصلح موعودؓ نے بشیرالدین تجویز فرمایا۔
محترم بشیرالدین الہ دین صاحب عہد طفولیت میں ہی والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے چنانچہ سارے بہن بھائی اپنے نانا کی زیرکفالت آگئے۔ گیارہ سال کی عمر میں آپ کو بغرض تعلیم قادیان دارالامان بھجوادیا گیا جہاں آپ نے دسویں تک تعلیم حاصل کی۔ آپ اردو، عربی، انگریزی اور ریاضی میں بہت مشّاق تھے۔ پھر اسٹار بون میل میں ملازمت کرلی۔ 1945ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا نکاح پڑھایا۔ 1961ء میں آپ کی دوسری شادی ہوئی۔
محترم بشیرالدین الہ دین صاحب نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے، فجر کے بعد پابندی سے قرآن کی تلاوت کرتے، دو دو گھنٹے رات کو نوافل ادا کرتے اور اہتمام کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتے، قرآن کے کئی دور کرتے اور اعتکاف بیٹھتے۔ آپ کو ادعیۃالقرآن، ادعیۃالمسیح الموعودؑ اور عربی قصیدہ وغیرہ تقریباً مکمل حفظ تھے جنہیں آپ فجر کے بعد یا عصر کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے تک ٹہلتے ہوئے پڑھتے رہتے۔ آپ جب بھی رسول کریمﷺ کی زندگی کے واقعات بیان کرتے تو آواز رُندھ جاتی اور چشم پُرآب ہوجاتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا کئی کئی بار مطالعہ کیا۔ داعی الی اللہ تھے اور زیر تبلیغ افراد کو گھر پر بھی بلاتے۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ سکندرآباد کے قائد خدام الاحمدیہ اور سیکرٹری تبلیغ و تربیت کے فرائض بجالاتے رہے۔ 1986ء میں آپ نے ’’محامد خاتم النبیین ﷺ‘‘ کے نام سے عشق رسولؐ میں حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات اکٹھے کئے۔ 1988ء میں ’’خدا کی قسم‘‘ کے عنوان سے حضور علیہ السلام کی وہ تحریرات اکٹھی کیں جہاں حضورؑ نے خدا تعالیٰ کی قسم کھائی ہے۔مالی قربانی میں بھی حصہ لیتے۔ آپ نے اپنی وفات (دسمبر 1997ء) تک وصیت کا تمام حساب صاف رکھا ہوا تھا۔
چونکہ آپکے خاندان میں احمدیت کی شروعات آپ کے والد محترم سیٹھ ابراہیم الہ دین صاحب سے ہوئی تھی اس لئے آپ نے خود بھی ’’الہ دین‘‘ کا لاحقہ ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ لگایا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی۔ محترم بشیرالدین الہ دین صاحب کا تفصیلی ذکر خیر ہفت روزہ ’’بدر‘‘ 19؍فروری 1998ء میں آپ کی بیٹی مکرمہ منصورہ الہ دین صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔