محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب

محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب 26؍اپریل 1920ء کو ٹورکی (انگلستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور دادا دونوں ڈاکٹر تھے جبکہ نانا ایڈمرل تھے۔ آپ کی ایک خالہ چالیس سال تک چین میں بطور مشنری کام کرتی رہی تھیں۔ عدم دلچسپی کے باعث آپ سولہ سال کی عمر میں تعلیم کو خیرباد کہہ کر فوج میں عارضی بھرتی ہو گئے۔ 1941ء میں فوج میں باقاعدہ کمیشن حاصل کیا۔ 1942ء میں آپ کو ہندوستان بھجوایا گیا جہاں آسام اور برما کے محاذ پر سیکنڈ لیفٹیننٹ رہے۔ ایک موقع پر جب اپنے افسر کے بلانے پر آپ خندق سے باہر نکلے ہی تھے تو ایک گولہ خندق پر آ گرا جس کے نتیجہ میں آپ کے تمام ساتھی آپ کی آنکھوں کے سامنے لقمۂ اجل بن گئے۔
ایک احمدی حوالدار کلرک (محترم عبدالرحمٰن دھلوی صاحب) کے ذریعہ آپ کو اسلام کا پیغام پہنچا۔ بعد ازاں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے مطالعہ اور قادیان میں دو روز قیام کے بعد آپ نے قبول احمدیت کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ سے اپنی پہلی ملاقات کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ اُس وقت گویا آپ کسی اَور ہی دنیا میں تھے۔ حضورؓ کے نورانی وجود کے علاوہ جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اہل قادیان کا حسن اخلاق تھا۔ احمدی ہونے کے بعد آپ کی سگریٹ نوشی، شراب نوشی، جوأ اور سینما بینی وغیرہ ساری بدعادات ترک ہو گئیں اور نہ صرف آپ نے جماعت کی تمام مالی تحریکات میں شمولیت کی توفیق پائی بلکہ جلد ہی تیسرے حصہ کی وصیت کرلینے کی بھی توفیق پائی۔
جنگ عظیم کے اختتام پر آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی اور اس طرح پہلے انگریز واقف زندگی احمدی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خط میں آپ کو لکھا: ’’بے شک آج تمہیں کوئی نہیں جانتا اور کسی نے تمہارا نام نہیں سنا لیکن یاد رکھو ایک زمانہ آئے گا کہ قومیں تم پر فخر کریں گی اور تمہاری تعریف کے گیت گائیں گی اس لئے تم اپنے کردار اور گفتارپر نظر رکھو …‘‘


محترم آرچرڈ صاحب کا بطور مبلغ پہلا تقرر گلاسٹر میں 1948ء میں ہوا۔ 1949ء میں آپ گلاسگو کے پہلے مشنری بنے۔ 1952ء میں ویسٹ انڈیز متعین ہوئے اور چودہ سال وہاں خدمت کرنے کے بعد 1966ء میں دوبارہ گلاسگو میں مبلغ مقرر ہوئے۔ 1983ء میں آکسفورڈ میں آپ کا تقرر ہوا۔ 1983ء سے 1992ء تک ریویو آف ریلجنز کے مدیر رہے۔ 1987ء سے 1993ء تک آپ کی رہائش اسلام آباد (یوکے) میں رہی۔ 1993ء سے آپ کی تقرری بطور مبلغ آکسفورڈ ہوگئی۔ آپ کے بے شمار مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے جبکہ LIFE SUPREME کے نام سے چند مضامین یکجا شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔
خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے رقم کیا جانے والا محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کا یہ انٹرویو مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے رسالہ ’’طارق‘‘ فروری 1996ء کی زینت بن چکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں