محترم حاجی بختیار احمد صاحب آف مالاکنڈ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اکتوبر 1999ء میں محترم حاجی بختیار احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم ظہور احمد صاحب لکھتے ہیں کہ آپ 1926ء میں مالاکنڈ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں والد کے سایہ سے محروم ہوگئے تو والدہ آپ کو لے کر پشاور منتقل ہوگئیں جہاں کچی محلہ میں رہائش اختیار کرلی اور بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا جو آخر وقت تک جاری رہا۔
محترم حاجی صاحب نے پشاور میں تعلیم حاصل کی اور جب میٹرک پاس کیا تو آپ ٹی بی کا شکار ہوگئے اور کئی سال تک ہسپتال میں جن ڈاکٹروں کے زیرعلاج رہے اُن میں ایک احمدی ڈاکٹر بھی شامل تھے۔ ابھی آپ کو صحت کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ نہیں ملا تھا کہ آپ کے محلہ کے لوگوں نے مذاق میں آپ کو کہنا شروع کیا کہ تم لاعلاج ہو اور تمہارا علاج صرف یہ ہے کہ ربوہ چلے جاؤ۔ چنانچہ آپ واقعی ربوہ چلے آئے۔ ربوہ کی سخت گرمی کے ایام میں حضرت مصلح موعودؓ کے پیچھے نمازیں ادا کرتے رہے اور جب واپس پشاور گئے تو واقعی خود کو صحتمند محسوس کیا۔ دل نے دوبارہ ربوہ جانے کی خواہش کی تو پھر چلے آئے اور اب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دیسی گھی کے ٹین کا تحفہ پیش کرکے بیعت قبول فرمانے کی درخواست کی۔ یوں قبول احمدیت کے بعد واپس پہنچے اور اپنی والدہ کو امام مہدی کے آنے کی خبر دی۔ انہوں نے نہایت اصرار کیا کہ انہیں بھی ساتھ لے جائیں اور وہ بھی بیعت کرنا چاہتی ہیں کیونکہ بچپن سے وہ ایک گیت پڑھتی آرہی تھیں جس میں مسیح موعود کی آمد کا ذکر تھا۔
صحت یاب ہوکر محترم حاجی صاحب نے ملازمت اختیار کرلی اور اس دوران تین مضامین میں ایم۔اے بھی کیا۔ 1960ء میں اپنی والدہ کی طرف سے حج بدل پر گئے اور خود بھی حج کی سعادت حاصل کی۔ جماعتی سرگرمیوں میں پوری دلچسپی سے شامل ہوتے۔ صدر حلقہ اور زعیم انصاراللہ پشاور وغیرہ کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اپنی تنخواہ میں سے صرف گھر کا ضروری خرچ رکھ کر باقی رقم چندہ میں دیدیا کرتے تھے۔ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ ذاتی طور پر مختلف قسم کے خطوط تیار کررکھے تھے جو غیرازجماعت دوستوں کو ارسال کرتے رہتے۔ بتایا کرتے تھے کہ جوبلی کے سال تک ایسے پچیس ہزار خطوط روانہ کرچکے ہیں۔ بہت دعاگو اور متقی تھے۔ آپ کے ہمسایوں کا بیان ہے کہ جب بھی وہ آپ کو ملنے آئے تو آپ کو جائے نماز پر ہی پایا۔
محترم حاجی صاحب کے ذریعہ جو قیمتی وجود احمدیت میں داخل ہوئے اُن میں ایک وارث خان صاحب بھی ہیں۔ یہ پہلے فلمی اداکار تھے۔ احمدی ہونے کے بعد اس کام کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کے چار بیٹے ہیں اور چاروں وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں۔ یہ محترم حاجی صاحب کے گھرانہ سے بہت متاثر تھے اور ان کے گھر کے بچے بھی آپ کی والدہ سے قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ آپ انہیں لٹریچر وغیرہ بھی دیا کرتے۔ 1973ء کا جلسہ سالانہ آگیا تو محترم حاجی صاحب نے انہیں جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ انہوں نے شرط رکھی کہ جاؤں گا ضرور لیکن بیعت نہیں کروں گا۔ آپ نے جواب دیا ٹھیک ہے۔ لیکن جب ربوہ کی طرف سفر شروع کیا تو وارث خانصاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے بارہ میں کوئی نظارہ دیکھا جو ملاقات کے وقت بعینہٖ پورا ہوا اور انہوں نے اُسی وقت خود خواہش کرکے بیعت کرلی۔
محترم حاجی صاحب 18؍جولائی 1999ء کو 73 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔