محترم حاجی محمد ابراہیم صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 و 11؍جنوری 2001ء میں مکرم پروفیسر محمد خالد گورایہ صاحب اپنے والد محترم حاجی محمد ابراہیم صاحب آف بوپڑہ خورد ضلع گوجرانوالہ کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 14؍جنوری 14-1913ء میں پیدا ہوئے۔ ابھی تین چار سال کے تھے کہ والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ ننھیال سارا احمدی تھا لیکن آپ کا تعلق اہلحدیث مسلک سے تھا۔ 1933ء میں پہلی شادی ہوئی۔ آپ کی یہ اہلیہ نوجوانی میں ہی وفات پاگئیں اور اُن کے بچے بھی نوعمری میں ہی وفات پاگئے۔ 1934ء میں قادیان جانے کا ارادہ کیا لیکن راستہ سے ہی واپس آگئے۔ آپ کی تعلیم پرائمری تک ہی تھی لیکن قریباً 1935ء میں گھر کو خیرباد کہہ کر تین سال تک دیرووال اور دہلی کے دینی مدارس میں علم کی پیاس بجھاتے رہے۔ 1945ء میں جب برصغیر میں الیکشن ہوئے تو آپ کو مسلم لیگ کا فعال سپورٹر ہونے کی بناء پر چند روز کے لئے جیل بھی جانا پڑا۔ قیام پاکستان کے موقع پر آپ نے اپنے علاقہ میں مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کیا۔ آپکی شخصیت شرافت، دیانت اور صداقت کی وجہ سے ہردلعزیز تھی۔ آپکی فہم و فراست اور اثر و رسوخ کی وجہ سے جھگڑے پنچائیت میں ہی حل کرلئے جاتے اور کبھی تھانہ کچہری کی نوبت نہ آتی۔
آپ توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ بے حد سخی اور غریب پرور تھے۔ ایک بار اپنی ساری فصل غرباء میں بانٹ دی اور سارے مویشی غریبوں میں تقسیم کردیئے۔ کسی کی کوئی ضرورت ہوتی تو آپ ہر طرح سے مدد پہنچاتے۔ امیر غریب میں کوئی فرق نہ کرتے۔ ایک بار آپ کا بھتیجا قتل ہوگیا اور آپ کی گواہی پر مشکوک کے خلاف چالان ہوسکتا تھا لیکن آپ نے برادری کے دباؤ کے باوجود جھوٹی شہادت دینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک بار جب آپ کے گھر چوری ہوئی اور چور سارا زیور اور قیمتی سامان وغیرہ لے گئے تو بعض لوگوں نے طعنہ دیا کہ خود تو چودھری بناپھرتا ہے…۔ اس پر آپ نے خود کو ایک کمرہ میں بند کرکے دعا شروع کردی اور خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اکیسویں روز چور پکڑے گئے اور سامان برآمد ہوگیا۔
ایک رات جب آپ اپنی منجی کی فصل لے کر منڈی گئے تو رات کو بارش شروع ہوگئی۔ آپ کے ایک بیٹے نے فکر کا اظہار کیا تو آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ یہ بارش تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی اور فصل کی قیمت بھی اچھی مل جائے گی۔ چنانچہ اگلے روز جہاں پوری منڈی میں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا وہاں آپ کی فصل والی جگہ بالکل خشک تھی اور سودا بھی بہت منافع بخش ہوا۔
آپ کے ایک ملازم کی چار بیٹیاں تھیں۔ جب اُس کی بیوی پھر امید سے ہوئی تو اُس نے آپ سے دعا کے لئے کہا۔ آپ نے قبل از وقت اُسے بتادیا کہ خدا تعالیٰ اُسے بیٹا دے گا۔ بعد میں یہ بات پوری ہوئی۔
مجھے اگست 1965ء میں قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی۔ جب مَیں واپس گاؤں گیا تو آپ نے مجھے بلاکر کہا کہ میرا یہ اصول ہے کہ جو فیصلہ کرلو اُس سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا اس لئے اب جو بھی حالات ہوں تم نے اس عہد پر پکے رہنا ہے۔ چنانچہ میری شدید مخالفت ہوئی، قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن مجھے ہر موڑ پر آپ کا تعاون حاصل رہا جس کے نتیجہ میں میری دعاؤں کا رُخ آپ کے احمدی ہوجانے کی طرف ہوگیا۔ بزرگوں کو بھی دعا کے لئے عرض کرتا رہا۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اور دیگر احباب نے یہی مشورہ دیا کہ مَیں انہیں خود احمدی ہونے کے لئے نہ کہوں بلکہ صرف ربوہ لے آؤں۔ اس دوران کئی اہلحدیث علماء ہمارے گاؤں آکر زورشور سے تقریریں کرتے رہے اور مجھ پر فتوے لگاتے رہے لیکن اُن کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں تھی جس سے والد صاحب مطمئن ہوجاتے۔ اکتوبر 66ء میں مَیں نے حکیم علی احمد صاحب معلم اصلاح و ارشاد کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے ساتھ والد صاحب کو انصاراللہ کے اجتماع پر ربوہ لے جائیں۔ بڑی مشکل سے آپ آمادہ ہوئے۔ جب یہ دونوں بزرگ راستہ میں ہی تھے تو نماز کا وقت آگیا۔ آپ نے حکیم صاحب سے کہا کہ نماز پڑھ لیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک گھنٹہ میں ربوہ پہنچ جائیں گے اور مرکز میں جاکر نماز پڑھ لیں گے۔ آپ نے یہ جواب دیکر نماز شروع کردی کہ ’’آپ کو شاید علم ہوگا کہ زندہ سلامت ربوہ پہنچ جائیں گے مگر مجھے اپنی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔ پھر آپ ربوہ پہنچے اور اجتماع کے دوران ہی آپ پر احمدیت کی صداقت آشکار ہوگئی۔ اجتماع کے آخری روز محترم مولانا عبدالمالک خانصاحب نے آپ سے کہا کہ حکیم صاحب نے مجھے راستہ میں نماز والی بات بتائی ہے، اب جبکہ آپ پر حقیقت واضح ہوچکی ہے تو کیا اب آپ کو اپنی زندگی کا اعتبار ہے؟ یہ سنتے ہی آپ نے بیعت فارم منگوایا اور بیعت کرلی۔
بیعت کرکے واپس گاؤں پہنچے تو ابتلاء کا دَور شروع ہوگیا۔ لوگوں نے بائیکاٹ کردیا اور بیوی بھی میکہ چلی گئیں۔ لیکن پھر آپ نے خود ہی چودھر ختم کردی اور لوگوں کے معاملات میں دخل دینا بھی بند کردیا۔ تاہم اکثر لوگ اپنے جھگڑوں کے فیصلوں کے لئے آپ سے ہی رجوع کرتے۔ عزیز رشتہ دار ہر قدم پر آپ سے راہنمائی مانگتے۔ آپ ایسے لوگوں کو دعوت الی اللہ کرتے اور کہتے کہ اگر تم اب بھی مجھے اچھا سمجھتے ہو تو میرے پیچھے آکر سچ کو قبول کرلو۔
گاؤں کے ایک شخص نے، جن کے ساتھ آپ کا مشترکہ زمیندارہ تھا، آپ کی وفات کے بعد بتایا کہ ایک بار پانی کی شدید کمی تھی تو انہوں نے فصل کو چوری کا پانی دینے کے لئے نال خریدی۔ جب والد صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ بے شک ایک دانہ بھی پیدا نہ ہو لیکن حلال میں حرام کی آمیزش نہیں کرنے دوں گا۔
1989ء میں گاؤں کا ایک نوجوان قتل ہوگیا تو کچھ مذہبی مخالفین نے FIR میں آپ کا نام بھی لکھوادیا۔ اس پر علاقہ کے معززین نے خود پیش ہوکر یہ گواہی دی کہ ہم اس شخص کو پچاس سال سے جانتے ہیں، اگر کسی نے اس کے خلاف پرچہ کٹوایا ہے تو وہ پرچہ لازماً جھوٹا ہے۔ چنانچہ یہ پرچہ جھوٹا قرار دے کر ختم کردیا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد گاؤں کے غیرازجماعت آپ کے احسانوں کو یاد کرکے آپ سے اپنی گہری محبت کا اظہار بہت ہی والہانہ انداز میں کرتے رہے۔
آپ نے ساری زندگی کبھی مایوسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ کہا کرتے کہ میرا ایسے اَن گنت خزانہ سے تعلق ہے … ساری زندگی جب بھی، جتنی بھی ضرورت پڑی، خدا تعالیٰ سے مانگی اور اُس نے کبھی مایوس نہیں کیا۔
بچپن سے ہمیں نماز باجماعت کی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ نگرانی بھی کرتے۔ صدقہ و خیرات ہمارے ہاتھوں سے دلواتے۔ بعض بیواؤں اور یتیموں کی طرف پیسے دیکر مجھے بھجواتے تھے۔ مساجد سے خاص لگاؤ تھا۔ اکثر جہاں فجر کی نماز پڑھتے وہاں سے اشراق کی نماز پڑھ کر ہی اٹھتے۔