محترم حاجی منظور احمد صاحب درویش
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم حاجی منظور احمد صاحب درویش کے خودنوشت حالات زندگی شامل اشاعت ہیں ۔
آپ موضع چانگریا ضلع سیالکوٹ میں 1929ء میں حضرت نظام الدین صاحب ؓکے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ صاحبہ بھی صحابیہ تھیں ۔ آپ چاربھائی اور ایک بہن ہیں ۔ آپ نے ساتویں کلاس سے پڑھائی چھوڑنے کے بعد جموں میں اپنے بڑے بھائی کے پاس 1942ء تا 1947ء فرنیچر کا کام سیکھا۔ قبولِ احمدیت کے نتیجہ میں آپ کے والد محترم کو جو تکالیف برداشت کرنا پڑیں ۔ اُن کو سُن کر آپ میں بھی روحانی جوش پیدا ہوتا اور اسی جذبہ کے تحت آپ نے زندگی وقف کردی۔ مارچ 1947ء میں حالات کی سنگینی کے پیش نظر آپ اپنی جماعت کے پانچ خدام کے ساتھ قادیان ڈیڑھ ماہ کے لئے آئے لیکن قریباً چار ماہ تک آپ کو رُکنا پڑا۔ جولائی 1947ء میں آپ واپس گاؤں چلے گئے تو فسادات کے دوران کئی لوگوں کی جان بچانے کی توفیق پائی۔ اور پھر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر حفاظتِ مرکز کے لئے خود کو پیش کردیا۔ اُن دنوں سیلاب سے راستہ بہت خراب تھا چنانچہ کئی دنوں میں کئی میل کاسفر پید ل کرکے اور بعض جگہ گہرے پانی میں سے گزر کر لاہور میں رتن باغ پہنچے جہاں حضورؓ کا قیام تھا۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ اُن دنوں حضورؓ نماز پڑھاتے تو اس قدر گریہ و زاری ہوتی کہ بعض دفعہ لوگ سڑک پر رُک کر پوچھتے کہ اندر کیا ہوگیا ہے۔ رتن باغ کے ارد گرد حفاظتی نقطہ نگاہ سے خدام کی ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں ۔ ایک رات خاکسار ڈیوٹی دے رہا تھا کہ آدھی رات کو کسی کی آہٹ سنائی دی لیکن باڑھ کی وجہ سے آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ خاکسار نے زور سے کہا: کون ہے؟ کھڑے ہوجاؤ۔ اس پر آواز آئی ،مرزا محموداحمد!۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ یہ آواز سن کر اور پہچان کر خاکسار کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ میں نے یہ کیا گستاخی کی ہے۔ حضوؓر قریب تشریف لائے خاکسار کا اور جماعت کا نام دریافت فرمایا اور پھرفرمایا: ہاں چانگریا کی جماعت پرانی جماعت ہے اور مَیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔
آپ مزید بیان فرماتے ہیں کہ حضورؓ اس بات کے لئے بہت پریشان تھے کہ قادیان سے بوڑھے بچے آرہے ہیں لیکن قادیان کی حفاظت کے لئے خدام نہیں جاپارہے۔ ایک قافلہ کے ساتھ ہم چند خدام نے پاکستان سے ہندوستان جانے کی کوشش کی تو واہگہ بارڈر پر قافلہ والوں نے شور مچادیا کہ یہ مسلمان ہیں ۔ خداتعالیٰ نے خاص اپنے فضل سے ہم سب خدام کی جان کی حفاظت فرمائی۔ آخر بڑی کوشش کے بعد دس ٹرک اس با ت پر راضی ہوئے کہ لاہور سے غیر مسلموں کے کیمپ سے اُن کے ہمراہ بیس خدام کو بھی لے جائیں گے۔ چنانچہ ہم 20 خدام کو فجر کی نماز میں تیار ہو کر آنے کا آرڈر ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے نماز کے بعدباغ کے ایک حصہ میں جانے والے خدام سے تعارف کیا اور مصافحہ اور معانقہ کیا۔ پھر بڑی پُرجوش تقریر فرمائی کہ آپ لوگ کسی میلے میں نہیں جارہے بلکہ ایسی جگہ جارہے ہیں جہاں پر تمہارے چاروں طرف دشمن ہوگا اور آپ کو ہر قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا ہوگا۔ممکن ہے آپ کو بھوکا رہناپڑے اور اگر کھانے کو ملے تو پیشاب پاخانہ بھی وہیں کرنا پڑے کیونکہ باہر تو آپ لوگ نہیں جا سکتے۔ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر تیار ہیں تو بہتر ورنہ ایمانداری سے کہہ دو کہ ہم ان تکالیف کو برداشت نہیں کرسکتے۔ مجھے ایسے خادم پر کوئی افسوس نہیں ہوگا اور اس کی جگہ دوسرا خادم چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی وہاں جا کر واویلا مچائے کہ ہمیں کس مصیبت میں ڈال دیا ہے ہمیں واپس بھیج دیں اور واپس آنے کی کوشش کرے تو ایسے خادم کو معاف نہیں کیا جائے گا۔چنانچہ خدام نے عرض کی حضور! ہم تمام قربانیوں کے لئے تیار ہیں ۔اس پر حضور نے بڑی پُرسوز دعا کروائی اور خدا حافظ فرمایا۔ ٹرک رتن باغ سے نکل کر ریفیوجی کیمپ پہنچے اور چند منٹوں میں ہی غیر مسلم افراد سے بھرگئے اور ہم خدام بھی انہیں میں گم ہو گئے۔ مغرب کے بعد ٹرک امرتسر پہنچے تو رات ہی ہم ایک ٹرک میں بٹالہ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قادیان جانے والی سڑک تخریب کاروں نے گڑھے کھود کر بند کر دی ہے۔ چونکہ ہمارے ساتھ قادیان کے دو چار خدام تھے جنہیں قادیان جانے کے سارے راستے معلوم تھے ۔ چنانچہ وہاں سے لمبے کچے فاصلے طے کرکے بڑی مشکل سے رات گیارہ بجے قادیان کے باہر پہنچ گئے۔ قادیان میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ صبح سے ہم نے کچھ نہ کھایا تھا۔ راستہ میں اس قدر لاشیں تھیں کہ خداکی پناہ۔ بدبو سے دماغ پھٹا جارہا تھا۔ اگلے دن جب کرفیو میں ڈھیل ملی تو چند خدام احمدیہ محلہ سے چائے اور روٹی لے کر آئے۔
محترم حاجی منظور احمد صاحب کو بہشتی مقبرہ کی چاردیواری کی تعمیر میں دیگر درویشان کے ہمراہ خدمت کی توفیق ملی۔ اسی طرح قادیان سے جماعتی کتب کو بحفاظت ربوہ پہنچانے میں بھی آپ کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ منارۃالمسیح پر سنگ مرمر چڑھانے کے کام کی نگرانی کی توفیق بھی ملی۔ نیز سرینگر، جموں اور مسکرا میں احمدیہ مساجد کی تعمیر میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔
آپ کی شادی مسکرا ضلع حمیرپور (یوپی) کے مکرم نثار احمد صاحب کی دختر سے ہونا تھی۔ کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ ایک سنار سے اُدھار ایک دو زیور بنوا لئے۔ ایک درویش بھائی نے اپنی پگڑی دی اور دوسرے نے اپنی شیروانی دی۔ اور آپ 1952ء میں اکیلے ہی قادیان سے یوپی جاکر اپنی اہلیہ کو ہمراہ لے آئے۔ اس شادی سے آپ کے ہاں چھ لڑکے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔
(نوٹ: آپ کی وفات یکم مئی 2015ء کو بعمر85 سال ہوئی)۔