محترم حافظ سخاوت علی صاحب شاہجہانپوری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2004ء میں محترم حافظ سخاوت علی شاہجہانپوری صاحب مرحوم درویش قادیان کے خودنوشت حالات زندگی (مرسلہ: مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب) شامل اشاعت ہیں ۔
محترم حافظ سخاوت علی صاحب نے 1980ء میں بیان فرمایا کہ خاکسار1885ء میں پیدا ہوا۔ دادا محترم امانت علی صاحب محلہ کے رئیس کی جائیداد گاؤں وغیرہ کے مختارعام تھے۔ میرے والد اُن کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد کا نام امام بخش تھا اور وہ بہت نیک صفات کے حامل تھے۔اولاً آپ حضرت محمد شیر میاں آف پیلی بھیت کے مرید تھے اور آسام میں شاہجہانپور کے ایک بزرگ کے ساتھ انگریزی ملازمت پر فائز تھے۔ غالباً1892ء تک حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کرچکے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ایک اَور احمدی دوست محترم مولوی غلام امام صاحبؓ کے ہمراہ شاہجہانپور تشریف لائے تو والد صاحب کی دعوت الی اللہ اور نیک نمونہ سے جلد قریبی رشتہ دار احمدی ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد حضرت حافظ سید علی میاں صاحب اور ان کے بیٹے حضرت حافظ مختار احمدصاحب شاہجہانپوری بھی مولوی غلام امام صاحب کی دعوت الی اللہ سے احمدی ہو گئے۔
خاکسار کو مسجد مدرسہ میں داخل کروایا گیا لیکن مخالفین نے ہم سے بہت بدسلوکی کی اور مسجد میں نماز بھی نہ پڑھنے دی۔ ہم نے والد صاحب کو یہ کیفیت لکھی تو انہوں نے جواباً لکھا کہ مَیں اپنی چھٹی کا سارا وقت حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کے پاس گزاروں۔
حضرت حافظ صاحبؓ کے گھر میں دو مدرسے قائم تھے یعنی شاعری کا بھی اور احمدیت کا بھی۔ اور ان دونوں علوم کے طالب فرداً فرداً اور قریباً روزانہ آتے تھے۔ شاعری کا تو یہ حال تھا کہ نئے شاعر اپنے کلام کی اصلاح کراتے۔ دوسری طرف کچھ محققین اور بعض محض مخالفت کے لیے آتے رہتے تھے۔حضرت حافظ صاحبؓ نہایت عمدگی اور عام فہم طریق پر قرآن شریف اور دیگر طریقوں سے کامیاب دعوت الی اللہ کرتے تھے اور ہم برابر سنتے رہتے تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی حیات مبارک میں باوجود کئی بار ارادہ کرنے کے قادیان نہ جاسکا۔ حضور کی زیارت سے محرومی کا غم کم کرنے کے لئے کشفی طور پر اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ صاف طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت اور ہمکلامی بھی عطافرمائی۔ 1905ء میں والد صاحب ہماری والدہ صاحبہ کو بھی حضور کی زیارت اور بیعت کے لیے قادیان لے گئے۔جب حضرت اماں جان والدہ صاحبہ کو حضورؑ کی خدمت میں سلام کرنے لے گئیں تو حضورنے والد صاحب کی ایمانی حالت کی تعریف فرمائی اور والدہ صاحبہ کو ضعف قلب کی شکایت پر ازراہ شفقت دوا بھی عطا فرمائی۔
مجھے شعرگوئی کا شوق طالبعلمی میں بیت بازی کی وجہ سے ہوا تھا۔ سب سے پہلے اپنی نظم جو حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش کی وہ اخبار بدر میں شائع ہوئی ۔جس کا پہلا شعر یہ ہے ؎
ہے اٹھتے بیٹھتے ہر دم یہی ورد زباں مجھ کو
کرم سے اپنے پہنچا دے الٰہی قادیاں مجھ کو
غالباً 1905ء یا1906ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک پرانے رفیق حضرت حاجی فضل حسین صاحبؓ کے ذریعہ کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ شاہجہانپور کے ایک نامی مولوی کو بھیجی تو اس تحفہ کے پیش کرنے میں یہ عاجز بھی شریک تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی زیارت کا پہلا موقعہ 1908ء میں جلسہ سالانہ پر حاصل ہوا۔ 1914ء میں تین ماہ قادیان میں رہا اور رات دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیارت اور ہمکلامی کا شرف ملتا رہا۔ میرے والدین کو 1912ء میں حضورؓ کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی ملی۔ والد صاحب 16جنوری 1920ء کو وفات پاگئے۔
1950ء میں جب قادیان میں صرف 313 درویش رہ گئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ اب ہندوستان کی جماعت کا فرض ہے کہ وہ مرکز کو آباد کرے۔ چنانچہ شاہجہا نپور سے مَیں پُرخطر حالات میں اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں کے ہمراہ قادیان کے لئے روانہ ہوا۔ پہلے دہلی پہنچے۔ پھر امرتسر تک ہر اسٹیشن پر کچھ شریر جمع ہوجاتے اور آوازے کستے۔ کچھ سامان بھی کھوگیا۔ امرتسر میں گاڑی سے اترنا بڑا دشوار تھا کہ اچانک مکرم خان فضل الٰہی خانصاحب پر نظر پڑی جو ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔
مارچ 1950ء میں ہم قادیان پہنچے اور مئی میں ہمارے ہاں چوتھا لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اللہ تعالیٰ نے خواب میں پہلے ہی مظفر احمد بتادیا تھا۔ چنانچہ حضورؓ نے بھی اس نام کو پسند فرمایا۔ پہلے تین لڑکوں کے نام بھی اُن کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے بتادیئے تھے۔