محترم حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب آف سرگودھا
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اگست 1999ء میں محترم حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کا ذکر خیر مکرم ڈاکٹر محمد اسحاق بقاپوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ دونوں احباب میں کئی قدریں مشترک تھیں۔ دونوں ہم عمر تھے، دوست تھے، مدرسہ احمدیہ، تعلیم الاسلام سکول قادیان اور پھر امرتسر کے میڈیکل سکول میں ہم مکتب و ہم جماعت رہے، امرتسر میں دونوں کی رہائش بھی اکٹھی رہی۔ دونوں ڈاکٹر بنے اور 1974ء میں دونوں کی جائے پریکٹس کو آگ لگادی گئی، دونوں نے دوبارہ کاروبار شروع کیا اور دونوں پر اللہ تعالیٰ نے بہت فضل کئے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ہم دونوں بہت اچھے شکاری تھے اور امرتسر میں قیام کے دوران اتوار کو غلیلوں کی مدد سے فاختاؤں کا شکار کیا کرتے تو ہوسٹل والوں کی عید ہو جاتی چنانچہ ہفتہ کے بقیہ دنوں میں ہوسٹل کے لڑکے ہمارے لئے چھت پر غلیلے بناتے رہتے۔
محترم حافظ صاحب نہ صرف حافظ قرآن تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لحن داؤدی سے بھی نوازا تھا۔ ہائی سکول قادیان کے مختلف مقابلوں میں اول انعام لے جاتے۔ آخر انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ آپ کوسپیشل انعام دیا جایا کرے اور باقی لڑکوں میں سے اول و دوم منتخب کئے جایا کریں۔
میڈیکل سکول سے فارغ ہونے کے بعد ہم دونوں نے فوج میں بھرتی ہونے کے لئے درخواستیں دیں۔ میں فوج میں چلا گیا لیکن حافظ صاحب کی چھاتی کی ہڈیوں میں کچھ نقص تھا اس لئے وہ منتخب نہ ہوسکے اور قادیان میں اپنے والد حضرت بھائی محمود احمد صاحبؓ کے ساتھ اُن کی دوکان پر کام کرنا شروع کردیا۔ پھر تقسیم ہند کے بعد سرگودھا میں آکر آباد ہوگئے۔ آپ اپنے والدین کے بہت مطیع اور فرمانبردار تھے۔ جب آپ کے والد اپنی آخری عمر میں اپنی یادداشت میں بہت کمزور ہوگئے تو آپ نے اُن کا بہت خیال رکھا۔ ایک روز مَیں آپ کے گھر میں تھا کہ ساتھ والے کمرے سے حضرت بھائی جی اور حافظ صاحب کی آوازیں آ رہی تھیں۔ حضرت بھائی جی کسی بات پر ناراض ہوکر کھانا نہیں کھا رہے تھے۔ حافظ صاحب اُنہیں اسی طرح منا رہے تھے جس طرح ایک بچے کو منایا جاتا ہے۔ آخر آپ نے اُنہیں لقمہ لقمہ کھانا خود ہی کھلایا اور باہر آئے۔