محترم حکیم محمد طفیل کاہلوں صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اگست 2002ء میں مکرم چودھری ظفراللہ انجم سہیل صاحب اپنے والد محترم حکیم چودھری محمد طفیل کاہلوں صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 7؍ستمبر 1920ء کو چک چہور سانگلہ ہل میں حضرت ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ اوکاڑہ اور پھر سانگلہ ہل میں گزارا۔ 1954ء میں اپنی فیملی کے ہمراہ ربوہ آگئے اور فیملی کو یہاں چھوڑ کر سندھ چلے گئے جہاں جوہیؔ ضلع دادو میں حکمت کا آغاز کیا اور بہت کامیاب پریکٹس کی۔ اسی اثناء میں ایک بلوچ وڈیرے کے کہنے پر اُس کے بھائی کے علاج کے لئے لسبیلہ (بلوچستان) گئے تو وہاں احمدیت کی تبلیغ کے جرم میں آپ کی بہت مخالفت ہوئی حتیٰ کہ جان بچاکر بڑی مشکل سے واپس پہنچے۔ لیکن دعوت الی اللہ کا ایسا جوش تھا کہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ وہاں پہنچے اور لوگوں کے علاج کے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی شروع کردی۔ اس بار گیارہ مخالف افراد نے آپ پر حملہ کیا تو آپ نے ایک مسجد میں پناہ لی۔ معجزانہ طور پر بوتانی قبیلے کے سردار امید علی بوتانی وہاں سے گزرے جنہوں نے معاملہ دریافت کیا تو آپ کو مسجد سے اپنے پاس بلایا۔ مخالفین نے کہا کہ آپ کی غلط دوا کی وجہ سے اُن کا سردار بیمار ہوگیا ہے۔ سردار بوتانی نے اُسی وقت اپنا آدمی اُن کے قبیلہ میں بھیجا۔ جب وہ غلط ثابت ہوئے تو اُس نے آپ کو پناہ دیتے ہوئے اپنی حفاظت میں واپس سندھ پہنچادیا۔
ایک بار آپ نے کشمور کے علاقہ میں حکمت شروع کی۔ وہاں کے ایک بڑے پیر صاحب نے آپ کو بلایا اور کہا کہ تم احمدی ہو اور مَیں تمہیں موقعہ دیتا ہوں کہ یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جاؤ۔ آپ نے کہا کہ پیرصاحب! آپ کی بیوی بیمار ہے اور غیرملکی علاج سے بھی ٹھیک نہیں ہوسکی۔ مَیں اس کا علاج کروں گا اور وہ ایک ماہ میں تندرست ہوجائے گی اور یہ احمدیت کا معجزہ ہوگا، یہ بات مَیں قبل از وقت بتا رہا ہوں۔ اس پر پیر صاحب نے کچھ دیر سوچ کر علاج کی اجازت دیدی۔ ایک ہی ماہ میں خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ عورت چلنے پھرنے لگ گئی تب پیر صاحب نے اعلان کروادیا کہ آپ جتنا عرصہ چاہیں اُس علاقہ میں رہ سکتے ہیں۔
آپ باقاعدہ تہجد ادا کرتے تھے کہ شاید ہی کبھی ناغہ ہوا ہو۔ 12؍جون 2002ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔