محترم خادم حسین صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مئی 2009ء میں محترم خادم حسین صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم انور حسین صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم خادم حسین صاحب نہایت مخلص خادم سلسلہ اور پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ شہر کے چوراہوں پر کھڑے ہو کر احمدیت کا پیغام پہنچاتے اور پتھر بھی کھاتے۔ دکانیں آمدنی کا واحد ذریعہ تھیں جو احمدیت کی وجہ سے جلا دی گئیں مگر کسی نے کبھی اُن کے چہرے پر افسوس یا دکھ کا احساس نہیں دیکھا۔
آپ کو مہمانداری کا بہت شوق تھا اور محبت کے انداز نرالے تھے۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک دن خادم حسین صاحب نے مجھے کھانے پربلایا مگر مَیں نے مصروفیت کی وجہ سے معذرت کرلی تو فوراً ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں غریب آدمی ہوں میں نے بہت مشکل سے آپ کے لئے کھانا بنوایا ہے۔ اُن کی یہ عاجزی دیکھ کر مَیں سارے کام چھوڑ کر اُن کے ہمراہ چلا آیا۔
ایک بار گھر میں ننگے پاؤں اوربغیر قمیص کے داخل ہوئے ۔ پوچھنے پر بتایا کہ باہر ایک فقیر حضرت مسیح موعودؑ کے شعر پڑھ رہا تھا میرے پاس اَور کچھ تھا نہیں، میں وہی دے آیا ہوں۔
احمدیت اورحضرت مسیح موعودؑ سے بے حد محبت اور بہت دینی غیرت تھی۔ اسی وجہ سے ملازمت سے بھی نکال دیئے گئے۔ آپ ایسی شادیوں سے جہاں بدرسوم ادا کی جاتیں اُٹھ کر آجاتے۔ آپ نے احمدیت کی وجہ سے اپنے سارے خاندان کو چھوڑ دیا اوراپنی زندگی کو اپنے بچوں بیوی تک محدود کر لیا۔ بچوں کو تربیت کے لئے رحیم یارخان سے ربوہ بھجوادیا تھا۔ تربیت کی خاطر بچوں کو قرآنی آیات اور دعائیں یاد کرنے کے لئے دیتے اور پھر انعام دے کر حوصلہ افزائی کرتے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو صرف تمہاری زبانی محبت نہیں چاہئے بلکہ تمہارا جماعت کے لئے عشق او ر قربانی کا جذبہ بھی چاہئے۔ اس وقت آپ کا ایک پوتا جامعہ احمدیہ انگلستان اور دوسرا جامعہ احمدیہ کینیڈا میں زیرتعلیم ہے۔