محترم خانصاحب شیخ نعمت اللہ صاحب
محترم خانصاحب شیخ نعمت اللہ 1886ء میں پیدا ہوئے اور مشن ہائی سکول وزیر آباد میں نویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریلوے میں معمولی عہدہ پر ملازمت کرلی لیکن اللہ کے فضل سے جلد جلد ترقی کرکے اسسٹنٹ انجینئر کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ اور احمدیت سے فیضیاب ہونے کے بعد تو اپنے سینئر ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر غیرمعمولی ترقیات حاصل کیں۔ دریائے چناب پر ریلوے و سڑک ربوہ کا موجودہ پُل آپ کی ہی زیر نگرانی تعمیر ہوا تھا۔ 1941ء میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے تو ملازمت میں توسیع کردی گئی۔
آپ کے قبول احمدیت کا واقعہ بھی تحریک شدھی سے تعلق رکھتا ہے۔ 1923ء میں جب تحریک زوروں پر تھی تو آپ نے سیالکوٹ کے ایک مولوی صاحب کو ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ اور سفر خرچ دے کر آگرہ جانے کیلئے تیار کیا اور ایک ماہ بعد مزید رقم بھجوانے کا بھی وعدہ کیا لیکن ایک ماہ گزرنے پر مولوی صاحب کا خط ملا جس میں انہوں نے بیٹے کی بیماری کی وجہ سے رقم خرچ ہوجانے کا ذکرکرکے مزید رقم بھجوانے کیلئے لکھا تھا تاکہ وہ آگرہ جاسکیں۔ اسی دوران حضرت مصلح موعودؓ نے احمدی احباب کو تحریک کی کہ وہ اپنے خرچ پر ایک معین عرصہ کیلئے آگرہ اور گردو نواح میں تحریک شدھی کا رَدّ کرنے کے لئے خود کو پیش کریں۔ اس تحریک پر حضورؓ کے مطالبہ سے بڑھ کر احمدیوں نے لبیک کہا۔ اور اس بات نے محترم خان صاحب پر ایسا اثر کیا کہ آپ نے جماعت کی بعض کتب کا مطالعہ کرکے 1924ء میں بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔
1935ء سے 1940ء تک آپ کوٹری (سندھ) میں بسلسلہ ملازمت تعینات رہے اور کچھ عرصہ امیر جماعت صوبہ سندھ کے طور پر بھی خدمت بجالائے۔ اپنے محکمہ میں بھی جماعتی تنظیم قائم کررکھی تھی اور تاحیات اس کے امیر بھی رہے۔ دین کے ساتھ ایسا عشق تھا کہ واقفین زندگی کی طرح خدمت کرتے تھے۔
3و4؍اگست 1943ء کی درمیانی شب وکٹوریہ ہسپتال میں وفات پائی۔ 4؍اگست کو جنازہ قادیان پہنچا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی بیماری کی وجہ سے حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ سے جنازہ پڑھانے کیلئے کہا۔ ابھی احمدیہ مدرسہ میں جنازہ کیلئے صفیں درست کی جارہی تھیں کہ حضورؓ نے پیغام بھجوایا کہ میت قصر خلافت لائی جائے، جنازہ میں پڑھاؤں گا۔ حضورؓ کا قیام قصر خلافت کی پہلی منزل پر تھا اور آپ حضرت صوفی غلام محمد صاحب (سابق ناظربیت المال خرچ) کا سہارا لے کر نیچے تشریف لائے اور جنازہ پڑھایا۔ جب حضورؓ واپس تشریف لے جارہے تو پھر واپس آکر فرمایا کہ خان صاحب کی جماعتی خدمات بہت ہیں اور دعوت الی اللہ کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لئے انکو قطعہ خاص میں دفن کیا جائے۔ حضورؓ کے فرمودات محترم خان صاحب کے کتبہ پر بھی درج ہیں۔ 1958ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی اہلیہ کا جنازہ غائب پڑھانے سے پہلے فرمایا کہ ان کے خاوند بہت دیر سے آئے مگر بہتوں سے آگے نکل گئے۔
محترم خانصاحب کا ذکر خیر آپ کے بیٹے مکرم شیخ قدرت اللہ صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍فروری 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔