محترم خلیفہ منیرالدین احمد شہید
حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کی وفات سے چھ ماہ قبل ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام حضرت مصلح موعودؓ نے منیرالدین احمد رکھا۔ یہ بچہ قادیان میں ہی بہت نازو نعم میں پلا۔تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ شکار اور ہاکی کھیلنے کا بے حد شوقین تھا۔ تقسیمِ ہندوستان کے وقت بطور درویش ایک عرصہ گزارنے کی توفیق پائی اور پھر پاکستان آکر تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے F.A. کی سند لی۔ پائلٹ بننے کا بہت شوق تھا چنانچہ اپنے بڑے بھائی محترم خلیفہ صلاح الدین صاحب کے ذریعے لاہور فلائنگ کلب کی رکنیت حاصل کی اور جب اپنی پرواز کے گھنٹے پورے کرکے سرٹیفیکیٹ لیا تو ایئرفورس میں بھرتی ہوگئے۔ اگرچہ آپ بولتے ہوئے ہکلاتے تھے لیکن فلائنگ کلب میں آپ کی اعزازی کامیابی کی وجہ سے ایئرفورس نے آپ کی ہکلاہٹ کو نظرانداز کردیا۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ جب بھی آپ بلندی پر پرواز کرتے تو ہکلاہٹ دور ہو جاتی۔ جنوری 1951ء میں جی۔ڈی پائیلٹ منتخب ہوکر ٹریننگ کیلئے چلے گئے۔
خلیفہ منیرالدین احمد جب بھی ربوہ آتے تو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کیلئے عرض کرتے اور پھر حضرت امّ ناصر صاحبہ ؓکے ہاں جاتے جو آپ کی بڑی ہمشیرہ تھیں اور پھر حضرت امّ طاہرصاحبہؓ کے ہاں جاتے کیونکہ آپ کو ان کا رضاعی بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔
جب پاکستان نے امریکہ سے ایف-86 سیر جہاز خریدے تو ٹریننگ کیلئے امریکہ جانے والے پہلے گروپ میں خلیفہ منیرالدین بھی شامل تھے۔ آپ کو فلائنگ کا اتنا شوق تھا کہ سکواڈرن لیڈر بننے کے بعد ترقی کیلئے مزید امتحانات دینے ترک کردیئے کیونکہ پھر انتظامیہ میں آکر فلائنگ چُھٹ جاتی۔ آپ فلائنگ میں بہت مہارت رکھتے۔ ٹارگٹ شوٹنگ میں بھی منفرد مقام تھا۔ ایئرفورس میں آپ کو نڈر اور بہادر سمجھا جاتا تھا ۔ ایئرمارشل اصغر خان نے ایک یومِ فضائیہ پر یہ بیان دیا تھا ’’ہمیں رفیقوں اور منیروں کی ضرورت ہے‘‘۔
1965ء میں محترم خلیفہ منیرالدین کی ڈیوٹی سرگودھا بیس پر تھی۔ باوجود انتظامیہ میں ہونے کے کئی معرکوں میں شامل ہوئے اور ہمیشہ فلائنگ کیلئے تیار رہتے۔ 11؍ ستمبر کو ایئروائس مارشل حکیم اللہ اور دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ امرتسر راڈار کو تباہ کرنے کیلئے جانے والی ٹیم میں شامل ہوئے۔ جاتے ہوئے اپنے دوستوں کو کہا کہ آج میں راڈار کو تباہ کرکے آؤں گا یا خود واپس نہیں آؤں گا۔ … چاروں جہاز جلد ہی اپنے ٹارگٹ پر پہنچ گئے۔ زمین سے توپوں نے گولوں کی بوچھاڑ کردی۔ خلیفہ منیرالدین نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ میں نے راڈار دیکھ لیا ہے۔ یہ کہہ کر غوطہ لگایا اور راڈار پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ ساتھیوں نے راڈار کے پرخچے اڑتے ہوئے دیکھے۔ حملہ کرکے آپ کا جہاز اوپر اٹھا تو ایک زمینی گولہ جہاز سے ٹکراگیا۔ جس کی اطلاع آپ نے اپنے ساتھیوں کو دی اور اس کے بعد آپ سے تمام رابطے منقطع ہوگئے۔ ساتھیوں نے دیکھا کہ آپ کا جہاز چکر لگاکر آیا اور عین راڈار سے ٹکرا گیا۔ غالباً جہاز کو واپس لانا بھی محال تھا اور جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلنا بھی ناممکن تھا اس لئے آپ نے اپنے جہاز کو ٹارگٹ پر گرا دیا۔ 11؍ستمبر کو پاکستان ایئر فورس نے اپنے طریق کے مطابق خلیفہ منیرالدین احمد کو Missing قرار دیا اور بعد ازاں آپ کی جرأت مندانہ خدمات پر آپ کو ’’ستارہ جرأت‘‘ سے نوازا۔ آپ نے اہلیہ اور ایک بیٹی کو بطور یادگار چھوڑا۔
آپ کا ذکرِ خیر مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ 19؍ ستمبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔