محترم رحمت علی مسلم صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍ستمبر 2001ء میں مکرمہ ملیحہ مسلم صاحبہ اپنے والد محترم رحمت علی مسلم صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ اپنے خاندان میں واحد احمدی تھے۔ آپ کے قبول احمدیت کا واقعہ یوں ہے کہ آپ میٹرک میں کامیاب ہوکر وظیفہ کے حقدار ٹھہرے تو میٹرک کی سند لینے کے لئے اپنے ہیڈماسٹر مکرم سید اقبال حسین شاہ صاحب کے ہاں پہنچے جو احمدی تھے۔ سند لینے کے بعد آپ نے محترم شاہ صاحب سے احمدیوں اور غیراحمدیوں میں فرق کی وضاحت چاہی تو محترم شاہ صاحب نہایت محبت سے جواب دیتے رہے اور قرآن کریم کو دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے۔ چنانچہ آپ نے اُسی وقت احمدی ہونے کا فیصلہ کرلیا اور تسلّی کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ لے لی جسے گھر والوں سے چھپ کر پڑھتے رہے۔ اس طرح دل نور ایمان سے بھر گیا۔ 1932ء میں آپ نے باقاعدہ بیعت کرلی اور 1936ء میں نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے۔ خاندان میں مخالفت کی وجہ سے آپ کو گھربار چھوڑ دینا پڑا۔ 1940ء میں جب آپ فوج میں تھے تو آپ کی خواہش پر آپ کا رشتہ محترم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کی ایک بہن (محترمہ صالحہ بیگم صاحبہ بنت حضرت بھائی محمود احمد صاحب قادیانیؓ) سے طے پایا۔ محترم ڈاکٹر صاحب سے آپ کو اس لئے محبت تھی کہ اُن کی تلاوت بہت پُرسوز تھی۔
محترم رحمت علی صاحب فوج میں تھے۔ جنگ عظیم دوم میں قیدی بنالئے گئے اور ایک لمبے عرصہ بعد واپس ہندوستان پہنچے۔ آزادی کے بعد سیدھے قادیان پہنچے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ نے ریلوے میں ملازمت کرلی۔ پھر ایم۔اے کرنے کے بعد ریلوے پبلک سکول ایبٹ آباد میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ اس وقت آپ کی عمر 46 سال تھی۔ BT اور MOL (فارسی) کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ پھر پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور لیکچرر بن گئے۔
آپ نے سرگودھا کی جماعت میں لمبا عرصہ گزارا۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ ذہن اور حافظہ بہت اعلیٰ تھا۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا سے ریٹائرڈ ہوکر دو سال تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں پڑھایا اور پھر چودہ سال تک جامعہ احمدیہ میں اردو اور فارسی کے اعزازی استاد کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ درّثمین فارسی کی کئی نظمیں ازبر تھیں۔