محترم رشید احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22اکتوبر 2010ء میں مکرم محمد یونس صاحب نے اپنے مضمون میں اپنے والد محترم رشید احمد صاحب کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چوہدری رشید احمد صاحب 1938ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد کُل 6 بھائی تھے جن میں سے ایک (یوسف صاحب) احمدی ہوچکے تھے اور کنری شہر میں رہتے تھے جبکہ باقی پانچ میل دُور ’’گوٹھ علم الدین‘‘ میں رہتے تھے۔جب بھی شہر کا کوئی کام ہوتا تو رشید صاحب خود جاتے اور اپنے احمدی چچا کو مل کر اُن سے احمدیت سے متعلق گفتگو بھی کرتے اور لٹریچر بھی لے آتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے کسی کو بتائے بغیر بیعت کر لی اور پھر اپنے والد اور بھائیوں کو اپنے احمدی ہونے کے بارہ میں بتا دیا۔ آپ کے والد ناراض تو ہوئے لیکن مارا پیٹا نہیں البتہ آپ کے چھوٹے بھائی نے آپ کو مارا۔ جلد ہی برادری والوں نے آپ کا بائیکاٹ کردیا۔ بھائیوں کے بیٹے آپ کے گھر کے سامنے سے گزرتے تو کافر کے آوازے کستے اور دیوار پر سے اُپلے صحن میں پھینکتے۔ بعض سندھیوں نے قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔ سکول میں آپ کے بیٹے (مضمون نگار) کا پانی کا برتن الگ کردیا گیا۔ یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ ربوہ سے ناصر آباد کا دورہ کرنے تشریف لائے تو کنری کے امیر صاحب اُنہیں ہمارے گاؤں میں بھی لے آئے۔ سارا گاؤں مہمانوں کو دیکھ کر اکٹھا ہوگیا۔ حضورؒ نے ایک پُر زور تقریر فرمائی اور اس کے بعد پوچھا کہ بتاؤ مَیں نے کوئی غلط بات تو نہیں کی؟ اس پر رشید صاحب کے والد محترم چوہدری علم الدین صاحب (جو اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے) کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ مَیں تو بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ توقّف سے باقی بھائی بھی بیعت پر آمادہ ہوگئے اور پھر وہاں پر موجود سب احباب نے اُسی جلسہ میں احمدیت قبول کرلی۔
محترم رشید صاحب اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر 1981ء میں گاؤں سے ’نبی سر روڈ شہر‘ چلے گئے۔ وہاں آپ کے چار برادر نسبتی مقیم تھے جو احمدی نہیں تھے۔ اس لئے اُن کی طرف سے مخالفت کا ایک لمبا دَور شروع ہوا جو اُن کی اولاد کے ذریعہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم وہاں جماعت قائم تھی اور احمدیہ مسجد بھی موجود تھی۔ پھر 1993ء میں محترم رشید صاحب کراچی آگئے اور اپنا مکان بناکر رہنے لگے۔ مختلف اوقات میں آپ کو قائد مجلس کے علاوہ زعیم حلقہ اور صدر حلقہ کے طور پر بھی خدمت کی سعادت ملتی رہی ہے۔ 22مئی 2005ء کو کراچی میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔