محترم سید محمد اقبال حسین صاحب اور محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍نومبر 1997ء میں مکرم سید منصور احمد بشیر صاحب اپنے والد محترم سید محمد اقبال حسین صاحب کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ محترم سید صاحب قریباً 1900ء میں نور محل ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور تینوں بھائی پٹواری اور قانونگو تھے۔آپ کے کئی عزیزوں کو اصحاب احمدؑ میں شمولیت کا شرف حاصل تھا۔ ایک بڑے بھائی حضرت سید محمد حسین شاہ صاحبؓ (جو ڈاکٹر نسیم بابر شہید کے دادا تھے) قادیان میں حضرت مصلح موعودؓ کی زمینوں کے مختار عام بھی رہے۔ محترم اقبال صاحب نے ایسے ہی نیک ماحول میں آنکھ کھولی اور 1913ء میں، جب آپ نویں جماعت کے طالبعلم تھے، حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔میٹرک اور B.A. تک تعلیم آپ نے لدھیانہ سے حاصل کی اور ہر مرحلہ میں وظیفہ حاصل کیا اورBT کرکے پیشہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ دورانِ تعلیم ہی آپ نے ذاتی شوق سے کتب سلسلہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ شروع کردیا تھا۔ جلد ہی آپ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے اور 1954ء میں جب اس عہدہ سے ریٹائر ہوئے تو آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فرائض انجام دے رہے تھے۔
آپ کی زندگی کی نمایاں خصوصیت نماز باجماعت کا قیام تھا جس کی راہ میں آندھی ، طوفان کوئی چیز حائل نہ ہوسکتی تھی۔جب تک چلنے سے معذور نہیں ہوگئے اس وقت تک فجر کی نماز کے لئے قریبی دوستوں کو جگانے کا فریضہ بھی نبھاتے رہے ۔ تہجد باقاعدگی سے ادافرماتے اور اس میں آہ و زاری آپ کا معمول تھا۔ قرآن کریم سے والہانہ لگاؤ تھا۔ آخری عمر تک قرآن کا ترجمہ و تفسیر سیکھنا اپنا مقصد بنائے رکھا۔ آخری عمر میں اپنی معمولی پنشن سے حصہ وصیت ادا کرنے کے بعد تفسیر کبیر کا سیٹ بھی خریدا۔ رمضان میں افطاری سے قبل سب کو اکٹھا کرکے اجتماعی دعا کرواتے۔ تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہد تھے۔ ویسے بھی اپنی آمد کا قریباً چوتھائی حصہ پیش کردیا کرتے تھے۔ وصیت بہت پہلے کردی تھی اور حصہ وصیت دسویں حصہ سے بتدریج بڑھاتے ہوئے تیسرا حصہ کردیا تھا۔آخر تک اپنے عزیزوں کو شدت سے عبادت اور چندوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہے۔
محترم اقبال شاہ صاحب بہت سادہ اور منکسرالمزاج تھے۔ سینکڑوں طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ کئی غریب طلبہ کو مفت ٹیوشن دی۔ آپ نے کسی ایسے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جب غیرقانونی ذرائع سے مال و دولت اکٹھی کی جاسکتی تھی خصوصاً طلبہ کے نتائج تبدیل کرنے کے بارے میں آپ نے ہر درخواست کو ٹھکرادیا۔ آپ ایک کامیاب داعی الی اللہ بھی تھے۔ تقسیم ملک سے قبل اپنے علاقہ میں مرکز سے علماء منگوا کر جلسے کرواتے اور حاضرین کے کھانے کا خود انتظام کیا کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اپنے خاندان کے افراد کو اکٹھا کرکے بچوں کے علمی مقابلے کرواتے اور انعامات دیتے۔
جب محترم اقبال صاحب ریٹائرڈ ہوئے تو اس وقت تک ٹوبہ ٹیک سنگھ میں احمدیہ مسجد نہیں تھی اور مخالفت کی وجہ سے مسجد کے لئے زمین لینا بھی مشکل تھی۔ چنانچہ آپ نے نقل مکانی سے قبل ایک دس مرلہ کا پلاٹ شہر میں خریدا اور اسے نصف قیمت پر جماعت کے نام منتقل کردیا۔ اسی پلاٹ پر بعد ازاں مسجد اور مربی ہاؤس تعمیر ہوا۔
17؍جون 1992ء کو آپ کی وفات قریباً 92 برس کی عمر میں ہوئی۔
محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کی 4؍دسمبر 1997ء کی اشاعت میں مکرمہ مبارکہ منیر احمد صاحبہ اپنی والدہ محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم سید محمد اقبال حسین صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ حضرت ڈاکٹر غلام دستگیر صاحبؓ کی بیٹی تھیں اور ابھی بارہ برس کی تھیں کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ شاید بچپن کی اسی یتیمی کی وجہ سے آپ یتیموں کے لئے بہت دردمند دل رکھتی تھیں چنانچہ دو یتیم لڑکیوں اور ایک یتیم لڑکے کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی۔ اپنے بچوں کے ساتھ تعلیم دلوائی اور بچیوں کے جہیز اپنی بیٹیوں کی طرح کے تیار کئے حتی کہ کپڑوں کے رنگ بھی ایک جیسے خریدے۔
مرحومہ نے پہلے خود اردو، انگریزی اور قرآن کریم کی تعلیم گھر میں حاصل کی اور پھر ساری زندگی قرآن کریم کی تعلیم دینے میں بسر کردی۔ اپنی اولاد کی تربیت کی خاطر 1935ء میں قادیان منتقل ہوگئیں اور وہاں لجنہ کی بھی خوب خدمت کی توفیق پائی۔ عبادت سے آپ کو عشق تھا اور آخری عمر میں نسیان کے مرض میں مبتلا تھیں لیکن ایسے میں بھی عبادت کرنا کبھی نہ بھولیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں