محترم سید میر مسعود احمد صاحب
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان میں مکرم عبدالرؤف خان صاحب نے اپنے مضمون میں محترم سید میر مسعود احمد صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ محترم میر صاحب سے میرا تعلق اکتوبر1964ء میں قائم ہوا جبکہ آپ کوپن ہیگن ڈنمارک میں بطور مبلغ سلسلہ مقیم تھے اور مَیں جدہ میں اپنی ملازمت سے فارغ ہوکر ڈنمارک میں ایک پوسٹ گریجوایٹ کورس کے لئے وہاں پہنچا۔ جدہ سے ربوہ خط وکتابت کر کے کسی احمدی کے ڈنمارک میں موجود ہونے کا علم حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم جب مَیں راستہ میں تین دن کے لئے بیروت میں رُکا تو وہاں سے روانہ ہوتے وقت بورڈنگ پاس حاصل کر کے وہاں بیٹھا تھا کہ اسی اثنا میں ایک شخص کاؤنٹر پر عملہ سے بات کرنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ اس لفافہ میں میری بیوی اور بچہ کے ہوائی جہاز کے ٹکٹ ہیں۔ اگر آپ یہ کوپن ہیگن لے جائیں تو وہ اگلی ہی فلائٹ سے یہاں آسکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ٹکٹ اور ان کے کوپن ہیگن میں مقیم عزیز مکتبی صاحب کا پتہ اور فون نمبر لے لیا۔
کوپن ہیگن پہنچ کر فون کیا تو مکتبی صاحب آدھ گھنٹے کے اندر ہوٹل پہنچ گئے اور جاتے ہوئے اپنی دوکان کا پتہ مجھے دے گئے۔ اگلے ہی روز صبح ہوم منسٹری سے فارغ ہوکر مَیں اُن کی دوکان پر چلا گیا۔ یہ قالین کی دوکان تھی ۔ باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگے کہ کیا تم کسی مسلمان کو یہاں جانتے ہو۔ میں نے نفی میں جواب دیا ۔ کہنے لگے کہ یہاں ایک احمد نام کے صاحب ہیں جو مبلغ ہیں۔ میں نے دل میں خیال کیا، ہو نہ ہو یہ کوئی احمدی ہوں گے۔ میں نے ان سے کہا ان سے ملا جاسکتا ہے۔ تو کہنے لگے میں ابھی فون کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے فون کیا اور کہا کہ میرے پاس ایک مسلمان بیٹھے ہیں جو کل ہی کوپن ہیگن آئے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے جب فون لیا تو آگے محترم میر صاحب تھے۔ پوچھنے پر میں نے بتایا کہ میں احمدی ہوں۔ اور لاہور سے آیا ہوں۔ کہنے لگے کس خاندان سے تعلق ہے۔ میں نے کہا ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے خاندان سے۔ کہنے لگے فوراً چلے آؤ۔
محترم میر صاحب کے بتائے ہوئے طریق پر ٹرام اور بس لے کر مَیں سٹاپ پر اُترا تو آپ کو منتظر پایا۔ اس کے بعد ہر Week Endاور جمعہ کی نماز میر صاحب کے پاس گزرتی۔
کوپن ہیگن ڈنمارک کا دارالخلافہ ہونے کے علاوہ سیکنڈے نیویا کا داخلی دروازہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر میں کوئی معقول جگہ مشن ہاؤس کے لئے حاصل کرنی بہت مشکل تھی۔ چنانچہ میر صاحب نے اپنی تقرری کے پہلے دو سال ایک چھوٹی سی جگہ میں (جو کہ تہہ خانہ میں تھی) گزارے۔ جہاں نہ تو خاطرخواہ ہیٹنگ کاانتظام تھا نہ کچن وغیرہ کی سہولت موجود تھی۔
1964ء کے اوائل میں بڑی تگ ودو کے بعد ایک کمرہ پر مشتمل چھوٹا سا فلیٹ کرایہ پر ملا۔ آپ کی رہائش اور تمام جماعتی پروگرام اسی جگہ انجام پاتے۔ جمعہ کے روز چھ سات افراد تک اسی کمرہ میں نماز جمعہ ادا کرتے۔ کمرہ کے ایک جانب ہلکی سی پارٹیشن کرکے کچن بنا ہوا تھا جس میں محترم میر صاحب اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کر کے جمعہ میں آنے والے احباب کو پیش کرتے۔ عیدین کی نمازوں کے لئے کوئی ہال کرایہ پر لے لیتے۔ میرے آنے کے بعد پہلی عیدالفطر 1965ء میں تھی۔ اس عید کے لئے میر صاحب، ایک مصری نژاد دوست اور مَیں نے کھانا تیار کیا۔ اور تقریباً رات کے ایک بجے فارغ ہوئے۔ بعد میں بھی جب باقاعدہ مشن ہاؤس اور مسجد نصرت جہاں کی تعمیر ہوچکی تو میر صاحب کا دستور رہا کہ جمعہ کے روز مہمانوں کے لئے کھانے کا اہتمام اپنی نگرانی میں کرتے۔ محترم میر صاحب کی محبت اوراخلاص دیکھ کر ہر انسان کا دل ان کی محبت میں گداز ہوجاتا۔
انسانی ہمدردی میں بھی میر صاحب کا نمونہ قابل تحسین تھا۔ غالباً 1972-1971ء کی بات ہے کہ رات ایک بجے فون کی گھنٹی بجی۔ محترم میر صاحب نے فون اٹھایا تو ایک غیر احمدی دوست بول رہے تھے کہ اُن کے ساتھی کی والدہ پاکستان میں فوت ہوگئی ہیں۔ جن کے صدمہ سے اُن کا ساتھی تقریباً نیم پاگل ہوکر دیواروں سے ٹکریں مار رہا ہے اور کسی طرح قابو میں نہیں آرہا۔ میر صاحب نے اسی وقت ٹیکسی لی اور وہاں پہنچے۔ غیر احمدی نوجوان کو تسلی دی اور ہر طرح سے اس کے غم کو ہلکا کیا۔ جب تک اُس نوجوان کی حالت تسلی بخش نہیں ہوئی، آپ مشن ہاؤس واپس نہیں آئے۔
مکرم میر صاحب خدمت خلق میں ہمیشہ صف اوّل میں تھے۔ مسلم،غیر مسلم، احمدی اور غیر احمدی کا کبھی کوئی سوال ان کے ذہن میں نہیں آتا تھا۔ سب سے یکساں شفقت کا سلوک فرماتے۔ 1972-1969ء کے دوران پاکستان سے احمدی اور غیر احمدی نوجوانوں کا ایک ریلا ڈنمارک میں روزگار کی تلاش میں پہنچا۔ ان میں اکثر غیر احمدی نوجوان تھے جنہیں میر صاحب نے مشن ہاؤس میں اس وقت تک ٹھہرایا جب تک ان کا اپنا خاطر خواہ رہائش کا انتظام نہیں ہوگیا۔