محترم سید یوسف سہیل شوق صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍نومبر 2001ء میں محترم سید یوسف سہیل شوقؔ صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ کو مسلسل 22 سال تک ادارہ الفضل میں خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ آپ 26؍نومبر 1950ء کو ننکانہ صاحب میں محترم ڈاکٹر سید محمد احمدی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت سید محمد حسین شاہ صاحبؓ دفتر تحریک جدید قادیان کے سیکرٹری اور حضرت مسیح موعودؑ کے صاحبزادگان کے مختار عام رہ چکے تھے۔
محترم سہیل شوق صاحب نے 1977ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے صحافت کا امتحان پاس کیا اور پھر لاہور کے بعض اخبارات میں کام کرنے کے بعد روزنامہ ’’حیات‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ارشاد پر اپریل 1979ء میں آپ نے زندگی وقف کردی اور بطور نائب ایڈیٹر روزنامہ ’’الفضل‘‘ خدمات سلسلہ کا آغاز کیا۔ ماہنامہ ’’خالد‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجلس عاملہ میں مہتمم امور طلباء کے طور پر بھی خدمت بجالاتے رہے۔ لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے سیکرٹری اشاعت بھی مقرر ہوئے۔ اپنے محلہ میں بھی بطور سیکرٹری دعوت الی اللہ اور زعیم انصاراللہ خدمت کی توفیق پائی۔
بحیثیت نائب مدیر الفضل، محترم شوق صاحب نے بہت سے اہم پروگراموں کی رپورٹنگ کی اور لاتعداد مضامین لکھے۔ MTA پر بھی کئی پروگرام پیش کئے۔ بچوں کے لئے کتب بھی لکھیں۔ آپ کو زندگی کے آخری لمحات تک وقف کے تقاضے نبھانے کی توفیق ملی۔ 23؍نومبر 2001ء کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
آپ ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ ربوہ کے گردونواح اور دُور دُور کے علاقوں میں بھی کئی دورے کئے اور بیعتیں حاصل کیں۔ اس سلسلہ میں اپنی موٹرسائیکل اور گاڑی بھی وقف کررکھی تھی۔ ہر وقت ہر کسی کی مدد کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ شعروشاعری میں بھی کمال حاصل تھا۔ بہت عمدہ مقرر تھے۔ لمبا عرصہ ’’الفضل بورڈ‘‘ کے سیکرٹری کے طور پر خدمات بجالائے۔ باقاعدہ وقف کرنے سے قبل مختلف شہروں میں خدام الاحمدیہ کے مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق پائی۔ احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن لاہور کے سیکرٹری بھی رہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 7؍دسمبر 2001ء میں مکرم عبدالسمیع خانصاحب ایڈیٹر الفضل بیان کرتے ہیں کہ محترم شوق صاحب کے پاس جب کبھی کوئی سائل اپنا کوئی بھی مسئلہ لے کر آتا تو آپ سارے کام چھوڑ کر اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ کرتے لیکن دفتری کام بھی نہایت عمدگی سے بروقت مکمل کرتے۔ مجھے جب ایڈیٹر مقرر کیا گیا تو میرا صحافتی تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا اور اخبار کی بنیادی اصطلاحات سے بھی واقفیت نہ تھی۔ محترم شوق صاحب نے عمر اور تجربہ میں مجھ سے بہت زیادہ ہونے کے باوجود کبھی مجھے اس کا احساس نہیں دلایا بلکہ اپنا اختلاف بڑے ادب اور دیانتداری کے ساتھ پیش کرتے۔ بے شمار قارئین آپ کی رپورٹنگ کے معیار کو بے حد سراہتے تھے۔ آپ کے سینکڑوں مضامین نام کے بغیر شائع ہوئے۔ ربوہ کی ہر علمی تقریب کا آپ لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔