محترم سیّد محمد شاہ سیفیؔ صاحب
ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان اپریل 2004ء میں مکرم ڈاکٹر سیّد بشارت احمد شاہ نے اپنے والد محترم سید محمد شاہ صاحب سیفیؔ کا ذکر خیر کیا ہے۔
آپ رقمطراز ہیں کہ میرے دادا حضرت سیّد سیف اللہ شاہ صاحبؓ پیرو مرشد تھے مگر اوائل عمر میں ہی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ اُن کی پیدائش 1299ھ میں ہوئی۔ بچپن سے اُن کی آرزو تھی کہ کوئی کامل پیر مل جائے۔ اس کے لئے بکثرت دعائیں بھی کرتے۔ قریباً بارہ سال کی عمر تھی کہ خواب میں رسول کریم ﷺ کی زیارت کی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رسول کریم ﷺ کے بروز اور خادم ہیں۔ اُن کے والد سیّد اسد اللہ شاہ صاحب ہر سال پنجاب میں مریدوں کے پاس دور ہ پر جایا کرتے تھے۔ واپسی پر وہاں کے حالات بتاتے تھے۔ یہ بھی ذکر کرتے تھے کہ قادیان نامی گاؤں میں ایک شخص مرزاغلام احمد صاحب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور آریوں اور عیسائیوں کو مناظروں میں لاجواب کرتے ہیں اور مستجاب الدعوات بھی ہیں اور پیشگوئی بھی بہت کرتے ہیں جو پوری بھی ہوتی ہیں۔ ان باتوں کا سید سیف اللہ شاہ صاحب کے دل پر بہت اثر ہوتا تھا۔ پھر ان کو کچھ لٹریچر بھی حضورؑ کا ملا جو بغور پڑھا۔ کئی بار پنجاب جانے کا موقع ملا۔ لیکن بیعت کرنی میّسر نہ ہوتی تھی۔ ہاں خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا۔ آپ کے والد آپکے اصرار کے باوجود آپ کو قادیان نہ لے کر جاتے تھے۔ آخر 1313ھ میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بیعت کے لئے خط روانہ کیا۔ پھر والد صاحب کی وفات کے بعد 1908ء میں لاہور گئے جہاں حضورؑ اُن دنوں قیام فرما تھے۔ چہرہ مبارک پر نظر پڑتے ہی یقین ہوگیا کہ حضور ؑ سچے ہیں۔ اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ بیعت کرنے والے آگے آجائیں۔ تو آپ نے دیگر دو آدمیوں کے ساتھ بیعت کی۔ آپؓ کی وفات 1957ء میں ہوئی۔ ان کی اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ آپؓ کا سلسلہ حضرت علیؓ سے 45ویں پشت پر جا کر ملتا ہے۔
آپؓ کے ایک بیٹے محترم سیّد محمد شاہ صاحب مضمون نگار کے والد تھے۔ آپ کو بوجہ احمدی ہونے کے کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی بار مقدمات میں پھنسائے گئے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں سے ہمیشہ کامیابی ملی۔ آپ کا شمار اہلِ قلم میں ہوتا ہے۔ جون 1951ء میں آپ نے ’’کشتی نوح‘‘ میں مندرج تعلیم اور دس شرائط بیعت کا بزبانِ کشمیری الموسوم ’’دعوتِ عمل‘‘ منظوم ترجمہ کیا۔ نیز کتاب ’’الملک الباب والبہا‘‘ کے بھی مصنف ہیں۔ آپ بچپن ہی سے ایک باعمل ، دیندار اور دین اسلام کے سچے اور حقیقی علمبدار تھے۔ دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پر کافی عبور تھا۔ نڈر داعی اللہ بھی تھے۔ ہزاروں لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا اور درجنوں آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے۔
قصبہ بیج بہاڑہؔ میں آپ کی شدید مخالفت ہوتی رہی، بائیکاٹ بھی کیا گیا، قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور مکان پر بھی حملہ کیا گیا۔ مگر آپ ہر موقعہ پر ثابت قدم رہے۔ 1953ء میں بھی آپ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی جو قبل از وقت ظاہر ہو گئی تو سازش کرنے والے شخص نے اس سازش کا سرے سے ہی انکار کر دیا۔ تب آپ نے دعا کی کہ خدا تعالیٰ جھوٹے کو سزا دے اور اس کی گرفت کرے۔ چنانچہ اگلے ہی روز وہ شخص اپنے پاگل بھائی کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ اسی طرح 1979ء میں بھی ایک جلوس کے ذریعہ آپ پر حملہ ہوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا۔
آپ فارسی اردو اور کشمیری زبان کے قادرالکلام شاعر تھے۔ عربی اور پنجابی میں بھی شعر کہتے تھے۔ آپ کا کلام کئی اخبارات ورسائل کی زینت بنتا رہا۔
14؍اکتوبر 1984ء کو سرینگر میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں آپ کی وفات ہوئی۔اس موقعہ پر کئی اخبارات نے موصوف کی علمی وادبی خدمات کو سراہتے ہوئے آپ کی علمی قابلیت کو اجاگر کیا۔ مثلاً کشمیر ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، ٹریبیون، ہند سماچار، سرینگر ٹائمز، آفتاب، ہلال وغیرہ۔
بوجہ موصی ہونے کے تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بھی ازراہِ شفقت لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔