محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب شہیداحمدیت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15نومبر 2008ء میں مکرم طارق محمود صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب امیر ضلع نوابشاہ سے میرا تعلق 1990ء سے تھا جب خاکسار اپنی سروس کے سلسلہ میں نوابشاہ آیا اورپھر یہ تعلق گہرا ہوتے ہوتے محبت کا رنگ اختیار کرگیا۔ آپ ہر وقت سلسلہ کے کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے جن میں سب سے نمایاں خوبی مہمان نوازی اور واقفین سلسلہ کی عزت و تکریم ہے۔ دل کے مریض ہونے کے باوجود مرکز سلسلہ سے آئے ہوئے مہمانوں کا خود خیال رکھتے تھے اور اس مقصد کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت اُن کے ساتھ گزارتے۔
واقفین زندگی کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ اصرار کرکے فرنٹ سیٹ پر مربی صاحب کو بٹھایا کرتے اور خود گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے۔
آپ گو زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ بیشمار اشعار آپ کو زبانی یاد تھے اور مختلف مواقع پر برمحل استعمال بھی کیا کرتے تھے۔ بہت ساری قیمتی کتب آپ کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔ آپ شعر بھی کہا کرتے تھے اور کبھی کبھی چند دوستوں کو سنایا بھی کرتے تھے۔ آپ کی یادداشت بلا کی تھی۔ جماعتی حوالے سے یا ملکی یا دنیا کے حوالے سے ہر اہم واقعہ آپ کو دن تاریخ اور سن کی نسبت سے یاد تھا۔ مثلاً مجھے ایک دفعہ بتایا کہ سلسلہ کے ایک بزرگ نے فلاں دن فلاں تاریخ فلاں سن کو مجھ سے وقف زندگی کی درخواست پر بحیثیت صدر جماعت دستخط کروائے تھے۔
خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے والہانہ لگاؤ تھا۔ ایک جلسہ یا اجتماع پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ تشریف لائے تو آپ بحیثیت قائد علاقہ روہڑی تک ٹرین میں ساتھ گئے۔ راستہ میں حضورؒ نے کھانا تناول فرمایا اور وہیں ہاتھ مبارک دھوئے تو آپ نے اپنا نیا رومال ہاتھ پونچھنے کے لئے پیش کیا۔ حضورؒ نے ہاتھ صاف کرکے رومال واپس کیا تو آپ نے ایک طرف جا کر جتنا رومال گیلا ہوا تھا اس پر مارکر سے نشان لگا دیا اور ایک کونے میں تاریخ بھی لکھ دی۔ یہ رومال آپ نے بعض دوستوں کو دکھایا بھی تھا۔
بہت نڈر اور قربانی کے جذبہ سے سرشار تھے۔ کئی شہداء کا نہایت محبت سے ذکر کرتے۔ اکثر خدام کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے ہو جاتے۔ حالات خراب تھے حکم تھا کہ امیر صاحب کا خاص خیال رکھیں۔ میں عرض کرتا کہ آپ باہر نہ کھڑے ہوا کریں تو کہتے کہ یہاں کے لوگ میری عزت کرتے ہیں میرا خیال ہے یہ میرا لحاظ کریں گے۔
ایک دفعہ خادم مسجد نے آپ سے سخت بدتمیزی کی۔ خاکسار نے خدام کو کہا کہ اس کو باہر نکال دو تو آپ نے ہمیں منع کر دیا۔ جب عاملہ نے معاملہ پیش ہونے پر اُس خادم کو مسجد کی خدمت سے فارغ کر دیا تو محترم امیر صاحب نے تین چار دن کے بعد مجھے کہا کہ وہ خادم بہت غریب آدمی ہے، پتہ نہیں اس کے بچوں نے کچھ کھایا بھی ہوگا کہ نہیں۔ اور پھر اپنی جیب سے ایک معقول رقم اس کے لئے بھجوائی اور چند دن کے بعد اس کو معاف کرکے بحال بھی کردیا۔
آپ کو مساجد کی تعمیر کا بے پناہ شوق تھا۔ نوابشاہ ضلع کی تمام مساجد اور جماعتی مراکز اورمربی ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس آپ کی ذاتی نگرانی اور شوق کی وجہ سے پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ ایک بار حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) باندھی ضلع نوابشاہ تشریف لائے تو وہاں مسجد کی خستہ حالت کو دیکھ کر اُس کی فوری تعمیر کا ارشاد فرمایا۔ یہ مسجد اور اس کی زمین محترم عبداللہ ڈاہری صاحب مرحوم نے تحفۃً انجمن کو دی تھی۔ مسجد کی دوبارہ فوری تعمیر کا سن کر پریشان ہوگئے۔ کراچی سے بھی ماہرین کو بلایا تو انہوں نے مدّت کم از کم چھ ماہ بتائی۔ اس دوران وہاں کے حالات بھی خراب ہوگئے۔ آپ نے اپنی حکمت سے مرکز سے اجازت لے کر رات دن خود نگرانی کرکے محض ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ایک وسیع ہال اور مربی ہاؤس بھی تعمیر کردیا۔ یہ ہال باندھی اور گردونواح کی تمام جماعتوں کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔
نوابشاہ کا محمود ہال، احمدیہ قبرستان اور ایک وسیع قطعہ اراضی، علاقہ سندھ میں سب سے بڑا ہال ایوان طاہر، سکرنڈ میں احمدیہ مسجد، دوڑ میں ایک قطعہ اراضی بغرض سنٹر باندھی میں ایک بہت بڑا ہال اور مربی ہاؤس باندھی میں ہے ایک وسیع اراضی بغرض سنٹر اور نوابشاہ میں ایک مربی ہاؤس کی تعمیر آپ کی ذاتی کوششوں اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آپ نے کبھی کسی کی دلآزاری نہیں کی کبھی کسی کی شکایت نہیں کی ہمیشہ ستاری کے پہلو کو اپنائے رکھا اور آپ بہت صابر اور شاکر انسان تھے۔ 1975ء میںجب مخالفت احمدیت اپنے عروج پر تھی ایک دن کے وقفہ سے آپ کے دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی اچانک فوت ہوگئے۔ آپ نے کمال صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا۔ مخالفین اپنے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیتے تھے۔ اس وقت اپنے بڑے بھائی سیٹھ محمد اسحق صاحب کی تحریک پر ایک قطعہ اراضی احمدیہ قبرستان کے لئے وقف کی اور وہ بچے سب سے پہلے اس قبرستان کے مکین بنے۔ یہ زمین اب شہر کے وسط میں آچکی ہے۔