محترم شہاب الدین صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍مارچ 2003ء میں مکرم محمدالدین صاحب اپنے سسر محترم شہاب الدین صاحب آف پیروچک کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کی بیٹی سے اپنی شادی سے قبل ہی مَیں آپ کو ایک جنونی داعی الی اللہ کے طور پر جانتا تھا۔ شادی کے بعد آپ کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات کا گواہ بنا۔ قیام پاکستان کے وقت گورداسپور میں پولیس کا ملازم تھا۔ پھر میرا تبادلہ سیالکوٹ میں ہوگیا۔ خود مَیں اپنے خاندان میں اکیلا احمدی تھا اس لئے شادی کے بعد آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی رہائش رکھی۔
آپ بہت عبادت گزار، تہجد گزار اور صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے۔ 1953ء میں جب احمدیت کے خلاف تحریک زوروں پر تھی تو آپ نے اپنے گھر والوں اور ایک قریبی احمدی گھرانہ کو بلایا اور بتایا کہ آپ نے ایک فوجی گاڑی کو دیکھا ہے جو گھر میں آگئی ہے اور اس میں سے چند فوجی افسر اتر کر کہتے ہیں کہ آپ بے فکر ہوجائیں کیونکہ اس گھر کی حفاظت کے لئے ہماری ڈیوٹی لگ گئی ہے۔ اُس سے اگلے روز ہی مارشل لاء لگ گیا۔
ایک بار آپ کا چھوٹا بیٹا نذیر احمد بچپن میں اتنا بیمار ہوا کہ اُس کا آخری وقت سمجھ کر عورتیں بھی اکٹھی ہوگئیں۔ آپ مسجد جاکر نفل پڑھنے میں مصروف ہوگئے تو کشفاً آپ کو بتایا گیا کہ وہ زندہ رہے گا اور پھلے پھولے گا۔ چنانچہ آپ واپس آئے اور عورتوں کو یہ بات بتائی۔ وہ سمجھیں کہ شاید آپ تسلّی دینے کیلئے ایسا کہہ رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہی لڑکا بڑا ہوکر برسرروزگار، صاحب اولاد ہوا اور جماعتی خدمات کی بھی توفیق پاتا رہا۔
ایک بار گوجرانوالہ سے ایک احمدی نوجوان سیالکوٹ آیا اور مسجد میں حضرت بابو قاسم الدین صاحبؓ امیر ضلع سیالکوٹ سے دعا کی درخواست کی کہ وہ اپنی نوکری کے انٹرویو کے لئے آیا ہے اور بہت مجبور اور خستہ حال ہے۔ انہوں نے دعا کا وعدہ کیا اور آپ (شہاب الدین صاحب) کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان سے بھی دعا کیلئے کہو۔ آپ نے بھی دعا کا وعدہ کیا۔ اگلے روز ظہر کی نماز کے وقت آپ نے اُس نوجوان کو کچھ پیسے دیئے کہ بازار سے سوگی لاکر نمازیوں میں تقسیم کردو۔ اُس نے سوگی لاکر آپکو دی کہ تقسیم کردیں۔ فرمایا کہ مَیں نے تمہیں تقسیم کرتے دیکھا ہے اور یہ کہ کوئی اَور کامیاب ہو یا نہ ہو، تم ضرور ہوجاؤ گے۔ چنانچہ وہ سوگی تقسیم کرکے انٹرویو پر چلا گیا اور عصر کی نماز پر اُس نے بتایا کہ صرف وہی کامیاب قرار پایا ہے اور باقی سب امیدواروں کو اگلی تاریخ پر بلانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک بیٹی ہوکر فوت ہوگئی اور پھر عرصہ تک کوئی بچہ نہ ہوا۔ میری بیوی کہتی تھی کہ مجھے کوئی بچہ لادو، مَیں اُس کو پال لوںگی۔ جب آپ کو علم ہوا تو فرمایا کہ ایک تو نماز میں کبھی سستی نہ کرنا اور دوسرا حسب توفیق چندہ ضرور دیا کرو اور خدا تعالیٰ سے مایوس نہیں ہونا، مَیں نے اس گھر میں چار بچے، دو لڑکے اور دو لڑکیاں کھیلتے دیکھے ہیں۔ اس کے بعد خدا کے فضل سے ہمارے ہاں دو بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے جو خدا کے فضل سے سب بچوں والے ہیں۔