محترم شیخ امام الدین صاحب اور ان کے بھائی کا قبول احمدیت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 مئی 2012ء میں مکرم شریف احمد علیانہ صاحب نے اپنے والد اور چچا کے قبولِ احمدیت کے واقعات بیان کئے ہیں۔
مکرم شیخ میاں غلام حسین صاحب آف کمالیہ (ضلع فیصل آباد) کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑے بیٹے محترم شیخ میاں امام الدین صاحب کی اپنے رشتہ داروں سے کچھ ایسی ناراضگی پیدا ہوئی کہ انہوں نے اُس مسجد میں نماز پڑھنی بھی ترک کردی جس میں اُن کے رشتہ دار نماز ادا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ سعید فطرت تھے اور اس اسلامی حُکم کو جانتے تھے کہ نماز باجماعت پڑھنی چاہئے اس لئے احمدیہ مسجد میں نمازیں ادا کرنے لگے۔ احمدی انہیں تعجّب سے دیکھتے لیکن احمدیوں کے امام الصلوٰۃ حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ نے احمدیوں کو ہدایت کردی تھی کہ کوئی ان سے مسائل وغیرہ سے متعلق بات نہ کرے۔
اُس وقت محترم شیخ امام الدین صاحب کا سیّدوالا کے مرکزی بازار میں جنرل سٹور تھا۔ ایک روز آپ دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک احمدی دوست وہاں آگئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ایک سال سے آپ ہمارے ساتھ نمازیں ادا کررہے ہیں، اب بیعت بھی کرلیں۔ اس پر آپ نے سختی سے جواب دیا کہ تُو کیا سمجھتا ہے کہ مَیں مرزا صاحب کو سچّا سمجھتا ہوں! مَیں تو اس لئے نماز آپ کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں کہ نماز میں کوئی فرق نہیں ہے اور اب تہجّد بھی پڑھا کروں گا۔ دوست نے کہا کہ ایک بار قادیان بھی چلیں۔ اس پر آپ نے کہا کہ قادیان میں کیا پڑا ہے جو کچھ قرآن میں موجود ہے۔ اگر قرآن نے مجھے بتایا تو مجھے مرزا صاحب کے ماننے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اُس دن آپ گھر آئے تو یہ فیصلہ کرلیا کہ اب تہجّد بھی باقاعدہ پڑھیں گے اور قرآن پر تدبّر بھی کیا کریں گے۔ چنانچہ تہجّد میں رو رو کر دعائیں شروع کردیں کہ اگر مرزا صاحب سچّے ہیں تو اللہ مجھے اُن کو ماننے کی توفیق دے۔
ایک روز آپ نے حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ کی خدمت میں کسی آیت کی تفسیر پوچھی اور جواب ملنے پر اُسی دن یعنی 15 جنوری 1915ء کو بیعت کرلی۔ اُس وقت تک آپ کے والد صاحب وفات پاچکے تھے۔ تاہم دیگر رشتہ داروں کو آپ کی بیعت کا علم ہوا تو آپ کی مخالفت شروع ہوگئی۔ جب اس کا علم فیصل آباد میں زیرتعلیم آپ کے چھوٹے بھائی علی محمد صاحب کو ہوا تو وہ غصّہ کی حالت میں آپ کے پاس آتے لیکن کوئی بات سُنے بغیر چلے جاتے۔ آپ نے بار بار اُن سے کہا کہ تم میں غور کا مادہ نہیں ہے اور صرف اس لئے مسلمان ہو کہ کسی مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہو۔ اگر کسی ہندو، سکھ یا عیسائی کے گھر میں پیدا ہوتے تو اُنہی کا مذہب اپنا لیتے…۔
کچھ دن کے بعد علی محمد صاحب آپ کے پاس آئے اور کہا کہ فیصل آباد میں ایک آریہ نے یہ اعتراض اسلام پر کئے تھے جن کا میرے پاس جواب نہیں تھا۔ پھر یہاں فلاں آریہ نے جو اعتراض کئے تو اُن کا بھی میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مَیں نے یہ اعتراض فلاں رشتہ دار کے سامنے کئے تو اُنہوں نے مجھے آریوں سے ملنے پر لعن طعن کی لیکن کسی اعتراض کا جواب نہیں دیا۔ پھر گھر میں آپ جو بات کرتے ہیں اُس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لئے جب تک مجھے ان اعتراضات کا جواب نہیں مل جاتا تب تک میرا کوئی مذہب نہیں ہے۔
محترم شیخ امام الدین صاحب اپنے بھائی کو لے کر حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ کے پاس آئے جنہوں نے سب اعتراضات کا تفصیل سے جواب دیا تو چند روز کے اندر علی محمد صاحب بھی بیعت کرکے احمدی ہوگئے۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں نے مخالف حالات کو نہایت صبرواستقامت سے برداشت کیا اور ایمان پر قائم رہے۔