محترم شیخ حمید احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 ستمبر 2009ء میں مکرم داؤد احمد عابد صاحب نے اپنے والد محترم شیخ حمید احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم شیخ حمید احمد صاحب کا تعلق تخت ہزارہ سے تھا۔آپ محترم شیخ محمد رفیق صاحب امیر جماعت احمدیہ تخت ہزارہ کے دوسرے بیٹے اور حضرت شیخ پیر بخش صاحبؓ کے پوتے تھے۔
محترم شیخ حمید احمد صاحب ہر جلسہ سالانہ میں باقاعدگی سے اپنی فیملی کے ہمراہ شامل ہوتے اور مالی تنگی کو بھی اس راہ میں حائل نہ ہونے دیتے۔
آپ اپنے بچوں اور پھر اُن کی اولاد کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔ اپنے ہمراہ انہیں مسجد لے جاتے اور راستہ میں نماز اور اس کا ترجمہ یاد کرواتے۔ درّثمین وغیرہ کے اشعار ٹیپ کرکے دیتے کہ سن کر یاد کریں۔ پھر امتحان بھی لیتے اور انعام بھی دیتے۔ گھر میں کوئی کام بھی کر رہے ہوتے تو حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار خوش الحانی سے پڑھتے رہتے اور اس طرح سننے والوں کو کئی شعر خودبخود یاد ہوجاتے۔
قرآن کریم کی تلاوت باترجمہ بڑی باقاعدگی سے اور خوش الحانی سے کرتے۔ دوسروں کو بھی روزانہ تلاوت کی تلقین کرتے۔ بچوں کو تاریخی واقعات اور انبیاء کی سیرت سے دلچسپ انداز میں آگاہ کرتے۔
1974ء میں ہمارے گھر کو جلانے کی کوشش کی گئی اور اس موقعہ پر آپ کو اور میرے بڑے بھائی کو مخالفین پکڑ کے لے گئے، اور بہت زدوکوب بھی کیا، خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پہ ان دونوں کو بچایا۔ پھر چند سال بعد آپ نے مجھے ربوہ میں زمین خریدنے کا مشورہ دیا اور پھر چھوٹا سا مکان بناکر ہم ربوہ منتقل ہوگئے۔ 1984ء کے پُرآشوب حالات میں ہم تین بھائیوں کو جو اس وقت ربوہ میں تھے اور ابھی جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ رہے تھے، بلایا اور آبدیدہ آنکھوں سے ہم سے عہد لیا کہ اگر جماعت کی طرف سے کبھی جان کی قربانی کا مطالبہ ہوا تو میں سب سے پہلے اس کے لئے تیار ہوں تم سب بھی وعدہ کرو کہ تمہارا قدم قربانی کے اس میدان میں پیچھے نہیں رہے گا۔
آپ موصی تھے، ہر ماہ کی ابتداء میں سیکرٹری صاحب مال کے گھر جا کے چندہ کی ادائیگی خود کر کے آتے۔ ایم ٹی اے سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا، خطبہ جمعہ جتنی مرتبہ بھی نشر ہوتا اسی توجہ اور انہماک سے دیکھتے اور سنتے۔روزانہ ڈائری لکھتے جس میں عموماً لکھا ہوتا کہ خدا تعالیٰ نے صحت دی ہے یہ یہ نعمتیں دی ہیں، ایم ٹی اے دیا ہے، خدا تعالیٰ کا شکر ہے۔ آپ شاکر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت صابر بھی تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں اپنے ایک جوان بیٹے مکرم وحید احمد صاحب شاکر اور ان کے اہل خانہ کی حادثاتی وفات کا صدمہ بھی نہایت صبر سے برداشت کیا۔