محترم شیخ عبدالحمید عاجز صاحب درویش
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم شیخ عبدالحمید عاجز صاحب فاضل قادیانی کے خودنوشت حالات بھی شامل اشاعت ہیں ۔
آپ کی پیدائش فروری 1920ء میں موضع دھرمکوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور میں حضرت شیخ محمد حسین صاحبؓ کے ہاں ہوئی جو محکمہ مال میں قانون گو تھے۔ وہ 1933ء میں بٹالہ تبدیل ہوکر آئے جہاں سے آپ نے 1935ء میں میٹرک کیا۔ 1939ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے B.A. کیا۔ 1940ء میں آپ ملٹری اکاؤنٹس کے محکمہ میں ملازم ہوگئے۔ آپ کی شادی مئی1945ء میں ہوئی۔ آپ نے ابتداء 1944ء میں زندگی وقف کردی تھی۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ آپ ابھی اپنی سروس جاری رکھیں جب ضرورت پڑے گی بلالیا جائے گا۔ نومبر 1946ء میں آپ نے دوبارہ اپنے آپ کو پیش کیا جس پر حضورؓ نے قادیان پہنچنے کا ارشاد فرمایا اور جنوری1947 ء سے بطور نائب ناظر بیت المال خدمت کرنے کا آغاز ہوا اور چند ماہ بعد دورِ درویشی کی سعادت بھی مل گئی۔
محترم شیخ عبدالحمید عاجز صاحب رقمطراز ہیں کہ 1950ء میں صدر انجمن احمدیہ کی ملکیتی جائیدادوں کے متعلق محکمہ کسٹوڈین کی طرف سے نوٹس ملا کہ کیوں نہ اُن کو Evacuated Propertyتصور کیا جائے نیز بنکوں میں صدر انجمن کی رقوم تا آئندہ فیصلہ Freeze کردی گئیں ۔ یہ صورت حال دعا اور راہنمائی کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کی گئی تو ارشاد موصول ہوا کہ مقدمہ کی پیروی کے لئے رانچی بہار کے احمدی وکیل سید محی الدین احمد کے پاس جائیں ۔ چنانچہ خاکسار نے رانچی جاکر جب اپنی آمد کا مقصد اُن سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چند روز قبل انہوں نے خواب میں حضرت مصلح موعودؓ کو ایک بڑے جلسہ میں دیکھا کہ حضور ؓ نے اُن کو بلاکر ایک فائل سپرد کی ہے۔ اور آپ وہ فائل لے کر آئے ہیں جو اُن کو خواب میں دکھائی گئی ہے اس لئے بغیر کسی معاوضہ کے وہ اس کیس کو سرانجام دیں گے۔ چنانچہ سید صاحب نے کمال قانونی لیاقت سے گورنمنٹ کے نوٹس پر یہ اصولی اعتراض اُٹھایا کہ صدر انجمن احمدیہ ایک رجسٹرڈ مذہبی اور خیراتی ادارہ ہے جو 1906ء سے رجسٹرڈ ہے اور لگاتار 1947ء کے بعد بھی کام کررہا ہے۔ ممبران کی تبدیلی سے انجمن Evacuate قرار نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ 1953ء میں آخری بحث کے بعد کسٹوڈین کی عدالت نے انجمن کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے بنکوں کی رقم پر قانونی پابندی اُٹھا دی اور فیصلہ کیا کہ انجمن اپنی جائیدادوں کا حق ملکیت کا ثبوت پیش کرکے واپس لے سکتی ہے۔
ملکیت کی دستاویزات تلاش اور مہیا کرنے میں کافی عرصہ لگا۔ جب 1956ء تک یہ ثبوت محکمہ کسٹوڈین میں داخل کروادیئے گئے توچونکہ کالج، سکول، ہسپتال، کوٹھی دارالسلام اور دیگر متعدد جائیدادوں کے ناجائز قابض متأثر ہوتے تھے اس لئے ایک سازش کے تحت محکمہ کسٹوڈین کی طرف سے نیانوٹس جاری کیا گیا کہ ان جائیدادوں کادس سال کا کرایہ ادا کیا جائے اور ان مکانوں کو کیوں نہ بذریعہ عام نیلامی فروخت کردیا جائے۔ ہمارا مؤقف یہ تھا کہ یہ ایریا 1947ء سے ہی مقدّس ایریا کے طور پر ہمیں الاٹ کیا گیا تھا اور ہم مالک ہونے کی حیثیت سے ان کا میونسپل ٹیکس ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور ہزارہا روپے ان کی مرمت پرخرچ کئے ہیں ۔ اسی دوران دنیا بھر کی جماعتوں سے حکومت ہند کے نام تشویش کی چھٹیاں او ر میمورنڈم آنے شروع ہوگئے۔ پھر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے مرکزی وفد نے 30 اپریل 1956ء کو ملاقات کرکے اپنا مؤقف پیش کیا تو پنڈت جی نے یقین دلایا کہ احمدیہ ایریا کی جائیدادوں کو بذریعہ نیلامی فروخت نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ہمیں مشورہ دیا کہ چونکہ ان جائیدادوں کے مالکان چھوڑ چکے ہیں اس لئے جماعت احمدیہ کو مستقل طور پر مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے لئے ان مکانوں کی ریزروقیمت ادا کردینی چاہئے۔ پھر پنڈت جی کی ہدایت پر ہم وزیر بحالیات شری مہتر چند کھنہ سے ملے۔ اُن کا ابتدائی مطالبہ گیارہ لاکھ روپیہ کا تھا مگر کافی نشیب و فراز کے بعد دو لاکھ 24 ہزار 700 روپے فائنل ہوئے جو پانچ سالانہ مساوی اقساط میں ادا کرکے تمام جائیداد صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام رجسٹری کروالی گئیں ۔ آپ نے تقسیم ملک کے بعد جماعتوں کی بیداری اور چندہ کی تشخیص کا کام کیا۔ نیز کئی اہم جماعتی خدمات کاموقعہ ملا۔ چار مرتبہ لندن آنے کا موقع بھی ملا۔ آپ ایک اچھے نثرنگار اور شاعر بھی تھے ۔ آپ کی کتاب ’’کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ رواں ‘‘ قابل مطالعہ ہے۔ آپ کی وفات 28؍اگست 2005ء کو ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں عمل میں آئی۔ آپ کے والدین پچاس کی دہائی میں پاکستان میں وفات پاگئے تھے لیکن اکثر درویشان کی طرح آپ نے یہ صدمہ قادیان میں صبر سے برداشت کیا۔