محترم شیخ محبوب عالم صاحب خالد
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 ؍مارچ 2004ء میں مکرم ناصر احمد خالد صاحب اپنے والد محترم پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے بانی ممبر اور پہلے منتخب جنرل سیکرٹری تھے۔ مجلس خدام الا حمدیہ کی تاسیس سے متعلق آپ فرماتے ہیں:
’’20 جنوری1938 ء کی شام کو جامعہ احمدیہ سے فارغ ہو کر جب گھر پہنچا تو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا ایک کارندہ یہ پیغام لے کر گھر آیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے یاد فرمایا ہے۔ جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو حضور نے مجھے شیخ عبد الرحمان صاحب مصری کے شائع کردہ ٹریکٹ دئے اور فرمایا ان کا جواب لکھو۔ دارالمجاہدین میں جاؤ اور واقفین کو ساتھ لے لو۔ اور چاہو تو جامعہ سے بھی۔ صف اوّل کے علماء سے کام نہیں لینا- صرف مولوی قمر دین صاحب اور مولوی ظہور حسین صاحب کو ساتھ رکھو اور کام شروع کر دو۔ اگر کسی کتاب کی ضرورت ہو تو میں اپنی ذاتی لائبریری سے دیدوں گا۔ خیر یہ ٹریکٹ لے لئے۔ اور کھانا کھائے بغیر واقفین کو ساتھ لے کر کام شروع کر دیا۔ پھر ایک دن حضورؓ نے فرمایا کہ اجلاس کر کے عہدیداران کا انتخاب کر لو۔ چنانچہ 31 جنوری 1938ء کو میری دعوت پر میری رہائش گاہ ’’مبارک منزل‘‘ میں دس نوجوان جمع ہوئے جنہوں نے احمدیت کی ترقی اور خلافت کی تائید میں کوشاں رہنے کا عزم کیا۔ جب میں نے انتخاب کی رپورٹ پیش کی تو حضورؓ نے پیڈ سے ایک کاغذ لیا جو کہ نیلے رنگ کا لکیر دار تھا۔ اور اس پر اپنی قلم سے ’’خدام الاحمدیہ‘‘ تحریر فرمایااور 4 فروری 1938ء کی تاریخ رقم فرمائی۔”
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میں نے والد صاحب کو ساری عمر سخت محنت اور مشقت سے کام کرتے دیکھا۔ دبلے پتلے، کمزورجسم، مختلف عوارض میں گھرے ہوئے، معمر ہونے کے باوجود زبردست یادداشت اور زبردست قوت ارادی۔ فرماتے تھے: ’’میں تو وقف زندگی ہوں اور واقف زندگی کی زندگی میں آرام اور چھٹی کا کوئی تصور نہیں‘‘۔ 1959ء میں جب ہمارے دادا کی وفات ہوئی تو تدفین سے فارغ ہوکر دفتر میں جابیٹھے۔ پھر دوستوں کے سمجھانے پر کہ لوگ گھر میں تعزیت کے لئے آرہے ہیں، آپ گھر آگئے۔
لمبا عرصہ تک آپ سندھ اور پنجاب کے دُوردراز قصبوں میں تین تین بسیں بدل کر اور کھڑے ہوکر سفر کرتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ ناظر مال ہونے کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کار دی۔ لیکن دس بارہ سال قبل جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا تو آپ نے کار کی بجائے سائیکل پر گھر سے دفتر جانا شروع کر دیا۔ اس پر ڈاکٹر صاحبان نے آپ کو نرمی سے ایسا کرنے سے منع کیا۔ زندگی بہت سادہ تھی اور غذا بھی برائے نام اور بہت سادہ۔ ایک بار فرمایا کہ ’’میری زندگی میں دو ہی اصول ہیں۔ سادگی اور پابندیٔ وقت‘‘۔
آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی (B.Ed)، ناگپور سے ایم اے عربی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کے امتحانات پاس کئے۔ آپ کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے خلافت سے قبل بھی بہت دوستی اور بے تکلفی تھی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے قادیان میں آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا بھائی بنادیا تھا۔
جب آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے تو دن کے گیارہ بجے بیت المال کے دفتر سے اٹھ کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں چلے جاتے۔ ایک دن میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور آپ قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھے۔ ساڑھے گیارہ بج گئے تو میں نے حیرانگی سے دریافت کیا کہ ’’آج آپ نے حضورؒ کی خدمت میں نہیں جانا؟ ‘‘آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اگلے دن اخبارات سے مجھے علم ہوا کہ اُس وقت حضورؒ کی ’’واقعہ ربوہ‘‘ کے سلسلہ میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مسٹر کے۔ایم صمدانی کے چیمبر میں شہادت تھی۔
اسی طرح ایک جماعتی عہدیدار نے حضورؒ کے کسی پروگرام کے متعلق آپ سے پوچھا تو جواب دیا کہ ’’بندہ تو حضور کا پرائیویٹ سیکرٹری ہے‘‘۔ لفظ پرائیویٹ پر زور دے کر کہا۔ آپ کو خود کو نمایاں کرنے اور اپنے متعلق بتانے سے بہت عار تھا۔
ایک دفعہ میں نے آپ کے بستر کی چادر ٹھیک کرنے کے لئے تکیہ اٹھایا تو اس کے نیچے تین چار صفحوں پر مشتمل بہت سے ناموں کی لمبی لسٹ تھی۔ معلوم ہوا کہ جو دوست بھی دعا کے لئے کہتے ہیں، اُن کا نام نوٹ کر لیتے ہیں اور رات کو نام بنام اُن کے لئے دعا کرتے ہیں۔
21 ؍اکتوبر2003ء کو جب آپ ہسپتال میں IC Unit میں داخل تھے، ڈرپ لگی ہوئی تھی اور سانس لینے کے لئے آکسیجن مشین ان کا بلڈ پریشر اور دل کی حرکت کو مانیٹر کر رہی تھی۔ تو دفتر کا آدمی ضروری کاغذات لے کر آگیا اور آپ نے ضروری معلومات حاصل کر کے سب پر دستخط کر دئے۔ اور آخری علالت میں بھی یہی ان کا معمول تھا۔