محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7، 8 و 9 ؍جولائی 2007ء میں بلند مرتبت احمدی ادیب محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کی سوانح اور ادبی خدمات کے حوالہ سے ایک تفصیلی مضمون محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مسعود احمد دہلوی صاحب

شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ایک درویش صفت، ادیب و قلمکار اور نامور محقق و مصنف تھے۔ آپ نے اپنی ادبی تخلیقات، گرانقدر تالیفات اور ادبی کارناموں کی وجہ سے ملک بھر کے ادبی حلقوں میں اپنی قلمکاری و نثر نگاری اور ادب نوازی کا لوہا منوایا۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ بھی آپ کو پیش کیا۔ دوسری طرف احمدیت کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے مقدور بھر دینی خدمات سرانجام دے کر آپ نے اپنے صدق و صفا اور اخلاص و وفا کا شاندار عملی ثبوت بہم پہنچایا۔ ملک کے ادبی حلقوں میں اپنی احمدیت کا برملا اعلان کمال درجہ جرأت و دلیری اور پُرجوش غیرت ایمانی سے کرتے رہے۔
آپ کے والد محترم شیخ محمد یعقوب صاحب نے خلافت اولیٰ میں احمدیت قبول کی تو آپ نے گو مخالفت بھی نہ کی لیکن عرصہ دراز تک اس وہم کی بنا پر احمدیت سے دور رہے کہ اس طرح سر سید احمد خان اور مولانا الطاف حسین حالی کی طرف طبعی میلان میں فرق آجائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو ادب سے آپ کا ناطہ ٹوٹ جائے گا اور آپ صرف مذہب ہی کے ہوکر رہ جائیں گے۔ تاہم مطالعہ کے شوق کی بنا پر اپنے والد صاحب کے بار بار توجہ دلانے پر آخر آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ شروع کیا تو نہ صرف احمدیت کی صداقت ذہن نشین ہوتی چلی گئی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی وجد آفریں عبارات پڑھ کر جھوم اٹھے اور آپ کے دل نے گواہی دی کہ واقعی یہ ’’سلطان القلم‘‘ ہیں۔ قریباً 1920ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ چیف میڈیکل آفیسر پانی پت میں تعینات ہوئے۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کے اخلاق عالیہ اور اوصاف حمیدہ کے محترم شیخ صاحب ایسے گرویدہ ہوئے کہ گویا ایک حسین پیکر میں احمدیت کی حسین تعلیم کا حسین عملی نمونہ نظر آگیا۔ چنانچہ آپ نے احمدیت قبول کرلی۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے بھی آپ کے سر پر دست شفقت رکھا۔ چنانچہ اس خادمانہ کیفیت اور دلی قربت کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ حضرت میر صاحبؓ کا علمی فیض بڑی حد تک آپ کے ذریعہ ہی جماعت کی آنے والی نسلوں تک پہنچا۔
محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب نے دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھا اور اردو کے عصری ادب میں بلند مقام حاصل کرنے کے باوجود اپنی غیرت ایمانی پر کبھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ خدا تعالیٰ نے بھی آپ کے اس جذبہ کو قبولیت کے شرف سے نوازا اور ایک احمدی ادیب کی حیثیت سے آپ کی شہرت ملک بھر میں پھیلتی چلی گئی۔
1940ء میں خاکسار (مضمون نگار) جب اپنے والد (حضرت محمد حسن آسان صاحب) کے ہمراہ پانی پت گیا تو خاکسار کی محترم شیخ صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ آپ نے پانی پت اور اس کے مضافات کی ہمیں تفصیلی سیر کرائی اور مسلم ہائی سکول میں مشاہیر کے فوٹو دکھائے جن میں حضرت مسیح موعود ؑ، حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ، حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے فوٹوز بھی تھے۔ چند گھنٹے کی یہ ملاقات ایک مستقل قربت اور احترام کی آئینہ دار دلی محبت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد جب اخبار الفضل لاہور سے جاری ہوا تو ایک عرصہ بعد محترم شیخ صاحب کے نہایت لائق و فائق فرزند محترم شیخ محمد احمد پانی پتی اخبار کے عملہ ادارت میں بطور معاون خاص شامل ہوئے تو اس بہت ہی نیک صالح اور لائق نوجوان اور خاکسار کے درمیان بہت جلد دوستانہ اور پھر بردرانہ تعلقات استوار ہوتے چلے گئے۔ 1954ء کے اواخر میں اخبار ربوہ سے نکلنے لگا تو مَیں ربوہ منتقل ہوگیا۔ لیکن محترم شیخ محمد احمد صاحب کے اصرار پر یہ وعدہ کرنا پڑا کہ کبھی بھی لاہور آیا تو قیام ان کے ہاں ہی کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا اور پھر مَیں نے دیکھا کہ محترم شیخ محمد اسماعیل پانی پتی اپنے فرزند کے اس دوست کی خاطر مدارت ہی نہ کرتے بلکہ اسے بھی اپنا فرزند سمجھ کر اس کے ساتھ خاص محبت ومؤدت اور غیرمعمولی شفقت کا سلوک روا رکھتے۔ اکرام ضیف اس گھرانہ کا خاص وصف تھا۔
محترم شیخ صاحب موصوف کے ہاں قیام کے دوران آپ کو بہت قریب سے دیکھنے نیز علمی تحقیق و تدقیق اور تالیف و تصنیف کے کام میں آپ کے غیرمعمولی استغراق کا بچشم خود مشاہدہ کرنے کے مجھے بیشمار مواقع میسر آئے۔ مزید برآں باہم تبادلہ ٔخیالات کے ذریعہ آپ کے وسیع علم و فن سے مستفیض ہونے کی سعادت بھی خوب ملی۔ آپ رات کا اکثر حصہ مطالعہ کتب اور تالیف و تصنیف کے کام میں گزارتے۔ تین بجے شب کے قریب گھڑی دو گھڑی کے لئے لیٹ کر پھر اٹھ کھڑے ہوتے اور نوافل پڑھنے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد دو تین گھنٹے کے لئے سو جاتے۔ ناشتہ سے فارغ ہوکر پھر مطالعہ کتب میں مشغول ہوجاتے، خطوط کے جواب تحریر کرتے اور پھر تصنیف کے کام میں محو ہوجاتے۔ کبھی کبھار ظہر اور عصر کے درمیان بستر پر دراز ہو کر استراحت فرماتے۔ عصر کے بعد ادیبوں، دانشوروں، کالجوں کے پروفیسروں اور طلباء کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ ہر کوئی آپ کے نادر کتب کے ذخیرہ سے مستفیض ہوتا یا آپ کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے ذریعہ ادبی اور علمی مسائل حل کرنے کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرتا۔ یہ سلسلہ عشاء تک جاری رہتا۔ اس کے بعد آپ پھر یکسوئی سے مطالعہ کتب اور تحقیق و تصنیف کے کام میں محو ہوجاتے۔ آپ کے علم اور وسعت معلومات سے فیضیاب ہونے والوں میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب ایس اے رحمن بھی شامل تھے۔ جب انہوں نے قتل مرتد کی تردید میں انگریزی میں کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو محترم شیخ صاحب سے نایاب کتب اور مواد مہیا کرنے کی درخواست کی۔
محترم شیخ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مدرسوں کی تعلیم تو حصول علم کی لگن پیدا کرنے اور اس کا چسکا ڈالنے کے لئے ہوتی ہے، اصل علم تو انسان اپنی استعداد کے مطابق اپنے ذاتی مطالعہ سے حاصل کرتا ہے۔ نیز فرماتے: ’’میں نے سکول میں صرف چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد گھر میں ہی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور میں نے حتی المقدور وسیع مطالعہ کتب کے ذریعہ علم حاصل کیا اور پھر اس علم سے استفادہ کرتے ہوئے قلم کو اس کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ صد ہا مضامین لکھے۔ تالیف کتب کا ایک طویل سلسلہ مکمل کیا اور بڑی تعداد میں کتب تصنیف کیں۔ آج ایم۔اے (اردو) کے تحقیقی مقالہ کے لئے طلباء میری راہنمائی میں تحقیق کرکے کامیابی حاصل کرتے ہیں‘‘۔
مجھے کئی نایاب کتب سے استفادہ کرنے کا موقع آپ کی لائبریری میں ملا بلکہ شمس العلماء مولوی ممتاز علی صاحب کا مرتب کردہ قرآنی مضامین کا سات جلدوں پر مشتمل انڈکس (جو ’’تفصیل البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور) جو آج کہیں سے بھی دستیاب ہونا قریباً ناممکن ہے، مجھے آپ کے توسط سے قریباً مفت حاصل ہوا۔
محترم شیخ صاحب کی تصانیف وتالیفات اور عربی کتب کے اردو میں تراجم کی مجموعی تعداد یکصد سے بھی اوپر ہے۔ مزید برآں آپ نے بہت سی نایاب کتب کو ایڈٹ کر کے اور ان میں جگہ جگہ حواشی کی وجہ سے ان کتب کی افادیت میں گرانقدر اضافہ ہوا۔ ان کتب کے یہ نئے ایڈیشن ملک کے مختلف نامور اشاعتی اداروں کی طرف سے خاص اہتمام سے شائع ہو کر ان اداروں کے لئے بے حد مالی منفعت کا موجب ہوئے۔ آپ کی اکثر و بیشتر تصانیف علمی، تاریخی اور سوانحی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسی کتب کی بھی ہے جو آپ نے نہایت آسان و سلیس زبان اور بہت عام فہم و دلکش انداز میں خاص طور پر بچوں کے لئے تصنیف فرمائیں اور جنہیں آپ نے خود اپنے زیر اہتمام اپنے ہی اشاعتی اداروں حالی بکڈپو اور محمد احمد اکیڈمی کی طرف سے شائع کیا۔ یہ سب کتابیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
ضعیف العمری میں بھی آپ نے ایک بہت محنت طلب کام سر انجام دے کر علمی اور ادبی حلقوں کو حیرت زدہ کردیا۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور حکومت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ سر سید احمد خان کی تصنیف کردہ کتب کے علاوہ ان کے مختلف علمی اور اصلاحی موضوعات پر جو بےشمار مقالے رسائل و اخبارات میں شائع ہوتے رہے تھے۔ ان سب کو جمع کر کے ایک سلسلہ کتب کی شکل میں شائع کیا جائے۔

صدر محمد ایوب خان

یہ کام لاہور کی مجلس ترقی ادب کے سپرد ہوا اورمجلس کی نگاہ انتخاب محترم شیخ محمد اسماعیل پانی پتی پر پڑی۔ چنانچہ مجلس کے اراکین کے اصرار پر آپ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور تن تنہا اُن مقالات کو پرانے رسائل و اخبارات سے جمع کر کے اور بعض ایسے مقالوں کو جو بظاہر ناپید ہوچکے تھے پرانے علم دوست اور ادب نواز مشاہیر کے ورثاء کے ذاتی کتب خانوں سے اخذ کرکے سولہ ضخیم جلدوں میں مرتب کر دکھایا۔ پھر ایک بڑا کارنامہ یہ سر انجام دیا کہ شمالی ہندوستان کے بیشمار علمی گھرانوں میں سر سید احمد خاں کے تحریر کردہ جو مکتوب محفوظ چلے آرہے تھے انہیں ڈھونڈ نکالا۔ آپ یہ کام چالیس سال سے کررہے تھے۔ اس طرح ’’مکتوبات سر سید‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب ہوگئی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ مزید برآں بہت سی نایاب قدیمی کتابوں کو آپ نے از سر نو ایڈٹ کر کے اور جگہ جگہ توضیحی و تشریحی حواشی درج کر کے ان کی افادیت میں اضافہ کیا۔
محترم شیخ صاحب کے گرانقدر ادبی کارناموں کی شہرت کی وجہ سے حکومت پاکستان نے 1970ء میں آپ کو حسن کارکردگی کا تمغہ اور سند پیش کی۔ اس اعزاز کے ملنے پر ملک بھر سے کثیر تعداد میں تہنیتی خطوط آپ کو موصول ہوئے۔ خطوط ارسال کرنے والوں میں غیر ملکی سفیر، قومی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، پروفیسر، ادیب اور نامور دانشور شامل تھے۔ مشہور ماہر تعلیم اور بلند پایۂ دانشور محترم جناب پروفیسر حمید احمد خاں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے اپنے تہنیتی مکتوب میں تحریر فرمایا کہ آپ ایسے مربی و محسن اور ادب نواز ہستی کو ادب کے صدارتی ایوارڈ کا ملنا آپ کے لئے اعزاز کا باعث نہیں ہے بلکہ یہ تو خود اس ایوارڈ کے لئے عزت و توقیر اور فخر و مباہات کا موجب ہے کہ ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والی عظیم ہستی کے سینہ پر سجنے کا اعزاز اس کے حصہ میں آیا۔
مشہور ادیب و صحافی اور نامور قلمکار جناب حامد علی خاں ڈائریکٹر ادارہ فرینکلین لاہور نے اپنے گرامی نامہ میں تحریر فرمایا۔ آپ کو صدارتی ایوارڈ ملنے پر مجھے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اس خوشی کی گہرائی بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ آپ میری خوشی کا کچھ اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مجھے یوں محسوس ہوا اور ہو رہا ہے کہ یہ ایوارڈ خود مجھے ملا ہے۔
محترم شیخ صاحب کے نہایت علم دوست اور عالم و فاضل فرزند مکرم شیخ محمد احمد پانی پتی تو آپ کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے۔ آپ کے دوسرے فرزند مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی آپ کے بعد طویل عرصہ زندہ رہے لیکن جماعتی سرگرمیوں اور دیگر کاموں میں منہمک رہنے کی وجہ سے وہ آپ کے علمی خزانہ کی خاطر خواہ حفاظت نہ کر سکے۔
اردو ادب کی گرانقدر خدمات سرانجام دینے کے علاوہ محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کو شاندار جماعتی خدمات بجالانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ متعدد ادبی رسالوں کے ایڈیٹر رہنے اور یکصد سے زائد کتب تصنیف و تالیف اور ایڈٹ کرنے کے علاوہ آپ نے صدر انجمن احمدیہ کے محکمہ تالیف و تصنیف میں کئی سال تک مہتمم طبع و اشاعت کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ اس تمام عرصہ میں آپ کو قادیان میں رہائش پذیر رہنے کا شرف حاصل ہوا۔نیز آپ نے اپنی قدیم خادمانہ حیثیت میں حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ کے لٹریری اسسٹنٹ کے فرائض سنبھال لئے اور حضرت میر صاحبؓ کے پُرمعارف منظوم کلام ’’بخار دل‘‘ اور دلچسپ سوانحی واقعات پر مشتمل آپ بیتی کتاب کی طباعت کا اہتمام کیا۔ حضرت میر صاحبؓ نے اپنی وفات سے قبل جو وصیت تحریر فرمائی اس میں محترم شیخ صاحب سے متعلق دو باتیں بطور خاص تحریر فرمائیں۔ اوّل یہ کہ آپؓ کی میت کو شیخ اسماعیل پانی پتی غسل دیں۔ دوسرے آپ کے غیر مطبوعہ مضامین اور دیگر تحریرات کے جملہ قلمی مسودات ان کے سپرد کر دئیے جائیں۔ یہ مسودات بہت قیمتی مضامین کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم فارسی کلام کے نہایت سلیس اور بامحاورہ اردو ترجمہ پر مشتمل تھے۔ محترم شیخ صاحب نے اس امانت کو طبع کراکر احباب جماعت تک پہنچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔
محترم شیخ صاحب کا ایک کارنامہ قیام پاکستان کے بعد قادیان سے نہایت بیش بہا علمی خزانہ کو بحفاظت لاہور منتقل کرنا تھا۔ اس میں انگریزی ترجمہ قرآن اور تفسیر کے مطبوعہ فرمے بھی شامل تھے جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی رقم فرمودہ تفسیر کی مدد سے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے سالہا سال کی محنت شاقہ سے انگریزی کا جامہ پہنایا تھا۔ اس موقعہ پر محترم شیخ صاحب نے اپنی کوئی ذاتی چیز از قسم کتب و مسودات ساتھ نہ لی۔ البتہ اپنے محسن و مربی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے غیر مطبوعہ قلمی مسودات اور حضرت مسیح موعودؑ کے بعض ایسے بیش بہا علمی نوادرات جو آپ کی ذاتی تحویل میں تھے، وہ پاکستان لے آئے۔
پاکستان میں اپنے اشاعتی اداروں کے ذریعہ آپ نے نہایت اہم کتب کی اشاعت کی۔ 1960ء میں ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کا اجراء ہوا تو خاکسار کی ادارت میں شائع ہونے والے ابتدائی رسائل میں محترم شیخ صاحب نے نہایت اہم علمی نوادرات مجھے اشاعت کے لئے بھجوائے۔
آپ اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود شب زندہ دار اور نہایت پاک طینت بزرگ تھے۔ فرشتہ صفت حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کی وصیت کے مطابق اُن کی میت کو غسل دینے والوں میں محترم شیخ صاحب کا نام شامل تھا۔
محترم شیخ صاحب نے 12؍اکتوبر 1972ء کو وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں