محترم شیخ محمد نعیم صاحب
محترم شیخ محمد نعیم صاحب مربی سلسلہ کا ذکرخیر قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 21 جولائی 2017ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں ہوچکا ہے۔ آپ کے بارہ میں ایک اَور مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26مارچ 2012ء میں شامل اشاعت ہے جو مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب نے تحریر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرا ایک مضمون فاتح چھمب جنرل اختر حسین ملک صاحب کے متعلق شائع ہوا تھا جس میں ایک اہم خط کا بھی ذکر تھا۔ بعدازاں مکرم شیخ محمد نعیم صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے مَیں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس خط کی مستند نقل دستیاب ہوجائے تو بہت فائدہ ہو۔ مرحوم نے فوراً کہا کہ جنرل صاحب کے فلاں عزیز سے رابطہ کرکے کوشش کریں۔ چنانچہ اس صائب مشورہ سے ایک تاریخی امر محفوظ ہوگیا اور خط کی فوٹو سٹیٹ مل گئی۔ دراصل مکرم شیخ صاحب کی یادداشت حیران کُن حد تک تھی۔ مکرم رانا تصوّر احمد صاحب (صدر محلہ) نے بتایا کہ مرحوم کو ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں میں ربوہ کی تمام کاروں کی نمبر پلیٹیں ازبر تھیں۔ مرحوم کے برادر نسبتی مکرم عبدالحئی صاحب ایڈووکیٹ نے بتایا کہ مرحوم کے پاس ٹیلیفون ڈائریکٹری کبھی نہیں رہی۔ سب ضروری نمبر اُنہیں زبانی یاد تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ یوں ہے کہ جب وہ نوابشاہ میں مربی سلسلہ تھے تو وہاں ایک خادم کا موٹرسائیکل چوری ہوگیا۔ اُنہی دنوں محترم شیخ صاحب کسی علاقہ میں گئے تو وہاں انہوں نے چوری شدہ موٹرسائیکل دیکھی اور فوراً پہچان لی کیونکہ اس کا نمبر انہیں زبانی یاد تھا۔ چنانچہ وہ موٹرسائیکل بازیاب ہوگئی۔
محترم شیخ محمد نعیم صاحب ایک متموّل گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد محترم شیخ محمد اسلم صاحب ٹرانسپورٹر تھے اور دنیاپور اور ملتان کے درمیان اُن کی کئی بسیں چلتی تھیں۔ لیکن 1974ء میں مخالفین نے اُن کی کئی بسوں کو آگ لگادی۔ بہرحال اس گھرانہ نے خداتعالیٰ کے فضل سے اس نقصان کو برداشت کیا اور اخلاص و وفا میں اَور بھی بڑھ گئے۔
محترم شیخ صاحب چندوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔ ضرورتمندوں پر کھلے دل سے خرچ کرتے۔ ایک بار کسی نے مجھے ایک لفافہ میں کچھ رقم بھجوائی اور لفافہ کے اوپر لکھ دیا کہ کتنی رقم ہے۔ یہ لفافہ انہوں نے محترم شیخ صاحب کو دیا جنہوں نے بعدازاں مجھے دیتے ہوئے کہا کہ رقم گِن لیں۔ رقم گِنی تو ایک ہزار روپے کم تھے۔ محترم شیخ صاحب نے اپنی اخلاقی ذمہ داری اور وضعداری نبھاتے ہوئے اپنی جیب سے ایک ہزار روپیہ دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ رقم لیتے وقت اُنہیں گِن لینی چاہئے تھی۔ لیکن چونکہ سارا معاملہ میرے سامنے تھا اس لئے اصرار کرکے اُن کے پیسے اُنہیں واپس دیئے۔