محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کے والد محترم کے جذبات
محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کے والد محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اپنے مضمون مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جولائی 1999ء میں رقمطراز ہیں کہ گھاؤ بہت گہرا ہے اور اس کی کسک اور بھی زیادہ گہری۔ بعض دفعہ تو مَیں اُن خنجروں کے وار جو ان ظالموں نے اس معصوم پر چلائے، اُنہیں اپنی پشت پر محسوس کرتا ہوں تو رات کی تنہائیوں میں میرا تکیہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا ہے لیکن پھر
’’انّا للّٰہ وَ انّا اِلَیۡہِ راجِعُون‘‘
کی آیت آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتی ہے کہ نہ تُو اس کا خالق تھا نہ مالک اور نہ ہی رازق۔ وہ تو ہماری طرف سے تجھے عنایت تھی، ہم نے جب چاہا، جیسے چاہا اسے اپنے پاس واپس بلالیا۔ لیکن تُو یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ موت تو ہر ایک کو آنی ہے لیکن دیکھ ہم نے اسے کیسی شان سے اپنے پاس بلایا ہے۔ ٹھیک ہے اولاد کی محبت ہم نے انسان کے خمیر میں رکھی ہے مگر ہم نے تو پہلے سے لوگوں کو بتا دیا ہوا ہے کہ تم اولاد اور اموال کے ضائع ہونے سے آزمائے جاؤ گے تاکہ ہم دیکھیں تم میں سے کون امتحانوں میں سرخرو ہوکر نکلتا ہے ورنہ زبانی محبت جتانے والے تو ایک اینٹ اٹھاؤ تو ہزار نکلتے ہیں۔
مَیں کیوں صرف قادر کی قربانی کا ہی تذکرہ کروں۔ دوسرے بھی تو کسی کے باپ، کسی کے بیٹے اور کسی کے بیوی بچے تھے۔ انہیں بھی ان سے اسی طرح محبت ہوگی جس طرح قادر ہمیں عزیز تھا۔ قادر کے خون کا رنگ دوسرے جاں نثاروں کے رنگ سے مختلف نہ تھا۔ اگر فرق تھا تو یہ کہ اس کی رگوں میں مسیح موعودؑ کا لہو دوڑ رہا تھا۔ اے غلام قادر! جب تک تُو زندہ رہا تُو نے اس خون کی حرمت کو پہچانا اور اس کی حفاظت کی اور آخر میں اسی کی راہ میں اسے بہاکر اس کا حق ادا کردیا۔
آفریں ہے اُس ماں پر جس نے اپنے لخت جگر کو آخری بار رخصت کرتے ہوئے بار بار پکار کر کہا ’’قادر! جزاک اللہ‘‘۔ کونسی ایسی ماں ہوگی جس کے صبر کے بندھن ایسے حالات میں ٹوٹ ٹوٹ نہ جاتے ہوں۔ ماں ماں ہی ہوتی ہے اس کی محبت کا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟
ایک غیرازجماعت دوست بشارت صاحب جو قادر کے ایبٹ آباد سکول میں ہاؤس ماسٹر تھے، اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’جب مَیں ہاؤس ماسٹر بنا تو محمود تو کالج میں تھا مگر غلام قادر ساتویں میں میرے پاس آیا اور مجھے اس کی تربیت پر فخر ہے … مجھے غلام قادر کتنا عزیز تھا۔ وہ خود بتا سکتا اور جانتا تھا یا مَیں اور میرا دل جانتا ہے۔ مجھے کتنا دکھ اور رنج ہے یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ اس کے انمٹ نقوش میرے دل پر بڑے گہرے ہیں اور جب تک حیات مستعار ہے مَیں اس صدمہ کو نہیں بھلا سکتا۔… غلام قادر تو معدودے چند میں سے ہے جن پر میری جان بھی قربان ہے۔‘‘
ایک تعزیتی قرارداد میں لکھا ہے: ’’مرزا غلام قادر پائندہ باد۔ خدائی بشارتوں کے تحت وہ اپنے وقت پر آیا اور اپنی قلیل عمر میں عظیم کاموں کی بنیاد ڈال کر عظیم الشان سرخروئی کے ساتھ اپنے آقا کے پاس واپس چلا گیا۔ اپنے کردار، اپنی شخصیت، اپنی خدمات اور شجاعت کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا کہ نونہالان جماعت کے لئے تاقیامت مشعل راہ ہوں گے۔… مبارک وہ وجود جس کی صلب سے یہ گوہر گراں مایہ منسوب تھا، مبارک وہ قوم جس کا یہ سپوت تھا اور مبارک وہ روحیں جو اس کی عظمت کو پانے کی کوشش کریں گی۔ مبارک وہ آہیں اور وہ آنسو کہ انتہائے صبر و رضا، تشکر و امتنان، محبت اور فطری غم سے جن کی ترکیب ہوئی۔ مبارک وہ سوگواران جو حسنِ صبر کی عظیم مثالیں قائم کر رہے ہیں اور کیا ہی وہ رزق ہوگا جو اس عظیم شہادت کے جاری فیض سے وہ پائیں گے۔‘‘
مکرمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کا قریباً دو سال کمپیوٹر کے سلسلہ میں محترم صاحبزادہ صاحب سے رابطہ رہا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے بلانے پر محترم صاحبزادہ صاحب ہمیشہ نہایت خندہ پیشانی سے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالتے اور اگر کوئی چیز اپنے دفتر میں بھول آتے تو یہ نہیں کہتے تھے کہ کل لے آؤں گا یا پھر کبھی یہ کام کردوں گا بلکہ فوراً تشریف لے جاتے اور وہ چیز لے کر واپس آتے۔ نہایت سنجیدہ، کم گو، شریف اور غضّ بصر سے کام لینے والے انسان تھے۔ خلیفۂ وقت سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ہم نے ان کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ حضور پسند نہیں فرماتے اس لئے مَیں بھی نہیں پیتا۔ اس کی جگہ کوئی دوسرا مشروب ہوتا تو کبھی انکار نہ کرتے۔ اُن کی شخصیت کی سادگی بہت نمایاں تھی، کبھی احساس نہ ہونے دیتے کہ وہ اپنے اندر علم کا ایک سمندر چھپائے ہوئے ہیں۔ ہر شخص سے اس کی سطح پر آکر بات کرتے۔ ؎
اُس کو کس روشنی میں دفنائیں
اس کو کس خواب کا بدن ہم دیں
وہ جو خوشبو میں ڈھل گیا یارو
اُس کو کس پھول کا کفن ہم دیں