محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی پاکستان کے لئے خدمات اور اعترافات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اگست 2005ء میں مکرم پروفیسر راجا نصر اللہ خانصاحب کے قلم سے ماہر اقتصادیات محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی پاکستان کے لئے کی جانے والی خدمات کے حوالے سے بعض اعترافات شائع ہوئے ہیں۔
پاکستان میں ایوب خان کا دس سالہ دور حکومت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا زمانہ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ سچے محب وطن اور کشادہ نظر حکمران تھے۔ انہوں نے ہر طرح کی مذہبی اور علاقائی منافرت سے بالا ہو کر مختلف قابل، مخلص اور اہل لوگوں کی صلاحیتوں اور خدمات سے پوری طرح فائدہ اٹھایا۔
چنانچہ عدلیہ میں معروف احمدی سپوت ماہر قانون شیخ بشیر احمد کو بطور جج خدمات انجام دینے کا موقع دیا، سائنس کے میدان میں جوہر قابل ڈاکٹر عبد السلام کی صلاحیتوں اور کاوشوں سے بھی فائدہ اٹھایا اور معاشیات کے میدان میں عالی دماغ جناب ایم۔ ایم۔ احمد کو بھی اپنے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیا۔ جناب ایم۔ ایم۔ احمد کی فوقیت وقابلیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دو سابق وزرائے خزانہ جناب محبوب الحق (جو جنرل ضیاء الحق کے دَور میں وزیر خزانہ رہے) اور جناب سرتاج عزیز (جو نواز شریف کے وزیر خزانہ تھے) 1960ء کی دہائی میں آپ کے ماتحت منصوبہ بندی کمیشن میں خدمات انجام دیتے رہے۔
صدر ایوب خان نے پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایم۔ایم۔احمد کو مرکز میں سیکرٹری خزانہ کی ذمہ داری سونپی اور آپ کی قابلیت کو سراہتے ہوئے منصوبہ بندی کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین مقرر کر دیا۔ چنانچہ ایم۔ایم۔احمد نے پاکستان کا شاندار پنج سالہ منصوبہ بنایا اور اس دَور میں تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور بہت سے دوسرے ترقیاتی منصوبے زیر عمل آئے۔
صدر یحییٰ خان کے دَور میں آپ صدر پاکستان کے اقتصادی مشیر مقرر ہوئے اور آپ کا منصب وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ اس دَور میں آپ کے بے مثال کارناموں میں وَن یونٹ کا خاتمہ اور نئے صوبوں کی تشکیل بھی شامل ہے۔ یہ کام جس کمیٹی کے سپرد تھا، آپ اس کے سربراہ تھے۔ ماہر اقتصادیات مسٹر شاہد جاوید تحریر کرتے ہیں: ’’کمیٹی کا کام بہت پیچیدہ تھا۔ اسے نہ صرف ون یونٹ کے حصے علیحدہ علیحدہ کرنے تھے بلکہ چار نئے صوبوں کو تشکیل بھی دینا تھا۔ ایم۔ ایم۔ احمد اس مہم پر پورے اترے۔ انہوں نے کئی ہفتوں تک اپنی شخصیت کے نمایاں اوصاف صبر و استقامت، عظمت ووقار اور ذہانت وفطانت سے کام لیتے ہوئے کمیٹی کی مسلسل رہنمائی کی اور گورنمنٹ کی طرف سے دئیے گئے عرصہ کے اندر اندر تمام بڑے بڑے مسائل کو سلجھالیا۔ کمیٹی کا منصوبہ یکم جولائی 1970ء کو نافذ العمل ہوا اور وَن یونٹ ختم ہوگیا اور سب اختیارات صوبہ بلوچستان، شمال مغربی صوبہ سرحد، پنجاب اور سندھ کو تفویض کر دئیے گئے‘‘۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کے حالات سیاسی اور اقتصادی طور پر بے حد گھمبیر اور تشویشناک تھے۔ مشرقی پاکستان کے خراب حالات کا فوج پر بے حد دباؤ تھا اور ملک کے مالیاتی نظام پر بے حد بوجھ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مشرقی پاکستان کے بینکوں سے کروڑوں روپے لوٹ لئے گئے۔ ملکی معیشت کو اس لوٹ کے بداثرات سے بچانے کے لئے جناب ایم۔ ایم۔ احمد نے دوسرے ماہرین کے ساتھ مل کر فوری اقدام کرتے ہوئے بڑی کرنسی کے نوٹ (سو اور پانچ سو روپے کے نوٹ) فوری طور پر منسوخ کر دئیے اور اس طرح دشمن کا ایک خطرناک منصوبہ ناکام ہوگیا۔ تمام قومی اخبارات نے اس اقدام کی بھرپور حمایت کی۔
مندرجہ بالا دگرگوں اور مہیب حالات میں جناب ایم۔ ایم۔ احمد نے 1972ء 1971-ء کا بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ پر وطن عزیز کے تقریباً سبھی معروف اردو وانگریزی اخبارات نے جس طرح شاندار تبصرے کئے ان کے پیش نظر متذکرہ بجٹ کو وطن عزیز کا واقعی مالیاتی شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس مثالی بجٹ کو گورنمنٹ پاکستان کے سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر انور اقبال قریشی سے لے کر جمیعت علماء پاکستان کے صدرصاحبزادہ فیض الحسن تک نے سراہا۔
اس بجٹ کو حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے قومی اخبارات نے لکھا کہ اس بجٹ کے دونمایاں پہلو ہیں۔ ٹیکسوں کے عائد کرنے میں معقولیت اور خود پر انحصار کرنے کی اشد ضرورت۔