محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 دسمبر 2009ء میں محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے بارہ میں مکرم مرزا ظاہر احمد صاحب کی جلسہ سالانہ امریکہ 2003ء کے موقع پر انگریزی میں کی گئی تقریر کا خلاصہ مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خانصاحب نے پیش کیا ہے۔
محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب28 فروری 1913ء کو قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے قانون کی ڈگری لی اور پھر انڈین سِول سروس کا مقابلہ کا امتحان کامیابی سے پاس کیا۔ پھر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جہاں سے واپس ہندوستان آنے پر آپ کی شادی حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی محترمہ امۃالقیوم صاحبہ سے ہوئی۔ پاکستان کے قیام کے بعد آپ نے بطور سِول سرونٹ پاکستان کی خدمت کا فیصلہ کیا اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے سیکرٹری مالیات، صوبے کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری، مرکزی سیکرٹری تجارت، مرکزی سیکرٹری خزانہ، وزیر منصوبہ بندی اور وزیرخزانہ کے عہدوں پر فائز رہے۔ بعد میں عالمی بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و پاکستان مقرر ہوئے۔ 1984ء میں ریٹائر ہوگئے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو میاں صاحب کے روحانی مقام کا بھی ادراک تھا اور اسی لئے 80ء کی دہائی کے ایک جلسہ سالانہ میں اپنی تقریر کے دوران حضورؒ نے فرمایا تھا کہ آپ سب ایم ایم احمد کو جانتے ہیں کہ انہوں نے اس دنیا میں کیا کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ لیکن ان کی روحانی کامرانیاں ان کی دنیاوی کامیابیوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
محترم صاحبزادہ صاحب کی عالمی راہنماؤں کے ساتھ سینکڑوں تصاویر ہیں جن میں وہ احترام کے ساتھ سر اٹھائے پوری طرح کھڑے نظر آتے ہیں لیکن خلفاء کے ساتھ جو تصویریں ہیں اُن میں اپنا سر جھکائے رکھتے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات سے چند ہفتے پیشتر مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں درخواست کی کہ وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے لوح مزار کے لئے چند کلمات عنایت فرماویں۔ حضورؒ نے ارشاد فرمایا: ’’آپ خود لکھیں اور میری جانب سے مندرجہ ذیل الفاظ شامل کریں: ’’وہ خلافت احمدیہ کے کامل فدائی تھے۔ ان کی خلافت کے ساتھ ایسے اعلیٰ درجے کی غیرمتزلزل محبت، اطاعت اور الفت تھی کہ مَیں بحیثیت چھوٹا بھائی ہونے کے بسااوقات الجھن سے دوچار ہوجاتا تھا‘‘۔ (Embarrassed)
اپنی وفات سے چند ماہ قبل ایک بار محترم میاں صاحب نے اپنے بیڈ کے قریب دراز سے خطوط کا ایک پیکٹ نکالا جو حضورؒ نے اُنہیں تحریر فرمائے تھے۔ پھر ہم سے کہنے لگے: یہ میری زندگی کا سرمایہ ہے۔
محترم میاں صاحب نے اپنی زندگی کے آخری 9 سال کمر درد کی وجہ سے تکلیف میں گزارے۔ لمبا فاصلہ چلنا مشکل ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جب ہم حضورؒ کو الوداع کہنے کے لئے امریکہ کے Dulles ایئرپورٹ پر موجود تھے اور مَیں ساتھ ساتھ چل رہا تھا تو حضورؒ نے مجھ سے پوچھا: بھائی کہاں ہیں؟ مَیں نے عرض کیا کہ ٹانگ اور کمردرد کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ حضورؒ واپس مُڑے اور پیچھے کی طرف چلنے لگے۔میاں صاحب بہت سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے۔ پیچھے ایک نائب وھیل چیئر کے ساتھ چلے آرہے تھے۔ حضورؒ نے بڑی محبت سے فرمایا: بھائی! وھیل چیئر پر بیٹھ جائیں۔ میاں صاحب نے حضورؒ کی طرف مُڑ کر بڑی احسان مند نظروں سے کہا: مجھے اجازت ہے؟۔ پھر اپنے امام کی اجازت سے چیئر پر بیٹھنے کے باوجود بھی میاں صاحب کی بے چینی اُن کے چہرہ سے عیاں تھی کیونکہ اُن کا آقا تو ابھی کھڑا تھا۔
اُن کی زندگی کا نصب العین دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا تھا۔ جب وہ بیدار ہوکر باتھ روم جاتے تو درد کی وجہ سے مجھے اُن کی آواز سنائی دیتی۔ پھر جب وہ سخت کوشش کرکے اپنے کپڑے پہن رہے ہوتے تو بھی درد کی آواز سنائی دیتی۔ لیکن اُن کا لباس لازماً بے شکن اور بے داغ ہوا کرتا تھا۔ اُن کی ٹائی کا رنگ کوٹ کی اوپر والی جیب میں سجے رومال کے ہم رنگ ہوتا اور جرابیں اور جوتے لباس کے رنگ کے مطابق ہوتے۔ جب وہ گھر کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے گیراج کی طرف جارہے ہوتے تو بھی مجھے اُن کے درد کی آواز سنائی دیتی۔ لیکن اُن کے درد کی آواز مَیں نے کبھی نہیں سنی جب وہ اپنے دفتر میں بیٹھے گھنٹوں کام کررہے ہوتے یا کسی طویل اجلاس کی صدارت کررہے ہوتے یا جلسہ میں یا شوریٰ کے اجلاس میں موجود ہوتے۔
میاں صاحب افراد جماعت سے کہا کرتے کہ وہ اپنے آپ سے یہ سوال کیا کریں کہ ’’آج مَیں نے اپنے دین کے لئے کیا کام کیا ہے؟‘‘۔ اور آپ اپنے آپ سے ہر روز یہ سوال پوچھا کرتے تھے۔ آپ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں: دوسروں پر اعتماد کرنا اور خود کو دوسروں کے لئے قابل اعتماد ثابت کرنا۔
مَیں بچپن میں آپ کو ٹی وی پر اور اخبارات میں دیکھتا اور پڑھتا۔ لیکن جب آپ میرے ساتھ ہوتے تو بالکل میرے جیسے بن جاتے۔ میرے ساتھ کھیلتے اور مَیں آپ کی کمر پر سوار ہوکر سارے گھر میں گھومتا۔ ایک بار اپنے کچھ دوستوں کے اصرار پر فلم دیکھنے چلا گیا۔ یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اُس زمانہ میں پاکستان میں فلم شروع ہونے سے پہلے عوام الناس کو باخبر رکھنے کے لئے ایک ہفتہ وار خبرنامہ پیش کیا جاتا تھا۔ جب وہ خبرنامہ شروع ہوا تو اُس میں زیادہ تر میاں صاحب کو ہی دکھایا گیا۔ اُن کی اعلیٰ سرگرمیاں دیکھیں تو مجھ پر احساس جرم غالب آگیا اور مَیں فلم شروع ہونے سے پہلے ہی سینماگھر سے باہر نکل آیا۔
جب مَیں بچہ تھا تو مجھے اچھی کاروں کا بہت شوق تھا اور مَیں سکول کے لئے ضد کرکے اُس گاڑی میں جاتا تھا جو محترم میاں صاحب کو گورنمنٹ نے مہیا کی ہوئی تھی۔ ایک دن ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا کہ مَیں اس گاڑی کے لئے کیوں اصرار کرتا ہوں۔ مَیں نے جواب دیا کہ کیسی شاندار کار ہے۔ اُس نے مجھے ایک نوٹ بُک دکھائی اور کہا کہ پہلے ہی روز میاں صاحب نے اُسے یہ نوٹ بک دی تھی کہ اُن کے خاندان کا جو فرد بھی گاڑی استعمال کرے تو اس کے میٹر سے مسافت نوٹ کرلی جائے اور پھر اس کا حساب کرکے ہر ماہ رقم میاں صاحب کے ذاتی فنڈ سے گورنمنٹ کو منتقل کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد مَیں خود کبھی اُس کار میں سوار نہیں ہوا۔
الفضل کے ایک مضمون میں یہ واقعہ شائع ہوا تھا کہ دو دوست اپنے کسی مسئلہ میں انصاف نہ ہونے کی شکایت لے کر جب کمشنر سے ملنے پہنچے تو وہاں دیکھا کہ بے شمار ملاقاتی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ ان میں کئی بااثر لوگ بھی شامل تھے۔ دونوں دوست ملاقات سے ناامید ہوگئے لیکن پھر ایک رقعہ لکھا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور ایک لمبا سفر طے کرکے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ یہ رقعہ لے جانے والا ملازم فوراً ہی واپس آگیا اور انہیں عمارت کے دوسرے دروازہ پر لے گیا۔ دروازہ پر دستک دی تو ایک نوجوان نے دروازہ کھول کر انہیں اندر بلالیا اور پوچھا کہ کیا ناشتہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم صرف کمشنر کو ملنے آئے ہیں اور اگر وہ نوجوان ان کی ملاقات کمشنر سے کرادے تو وہ بہت شکرگزار ہوں گے۔ وہ نوجوان کمرہ سے چلاگیا اور کچھ دیر بعد ایک ٹرے کے ساتھ لَوٹا جس میں چائے اور بسکٹ رکھے ہوئے تھے۔ ایک بار پھر دونوں نے التجا کی کہ وہ کمشنر سے ملنا چاہتے ہیں۔ نوجوان نے مسکراکر بتایا کہ وہی اس علاقہ کے کمشنر ہیں۔
محترم میاں صاحب بہت بامروّت اور دوسروں کا خیال رکھنے والی شخصیت تھے۔ ایک دفعہ آپ نے دورہ پر آئے ہوئے پاکستان کے وزیرخزانہ کو ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کی دعوت دی۔ مَیں نے کہا کہ ہم جب بھی پاکستان جاتے ہیں تو یہ وزیر ہماری دعوت اپنے گھر پر کرتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مَیں انہیں گھر پر نہیں بلانا چاہتا؟ اگر مَیں گھر پر اُن کی دعوت کروں تو تنگ نظر اور متعصب لوگ اُن کے پیچھے پڑ جائیں گے۔
بہت دفعہ ایسے ہوا کہ اگر میاں صاحب کو محسوس ہوا کہ انہوں نے گھر کے کسی فرد کے ساتھ زیادتی کی ہے تو وہ ہمارے پاس آتے اور کوئی عذر بنائے بغیر کہتے: ’’مَیں غلطی پر تھا۔ مجھے معاف کردیں‘‘۔ آپ کے انداز سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ آپ ہر لفظ سچے دل سے کہہ رہے ہیں۔
محترم میاں صاحب واقفین زندگی اور خدمت دین کے لئے مستعد رہنے والوں کے لئے بہت نرم گوشہ رکھتے تھے۔ مکرم مولانا شمشادناصر صاحب کا بیان ہے کہ جب وہ پہلی بار امریکہ آرہے تھے تو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اُن کی ملاقات محترم میاں صاحب سے ہوئی اور انہیں اپنا تعارف کروایا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جہاز میں سوار ہونے کے بعد دوران پرواز کئی بار میاں صاحب اُن کے پاس آئے اور خیریت دریافت کرتے رہے۔ امریکہ میں جہاز اترنے سے پہلے آکر فرمایا کہ وہ ڈپلومیٹک لاؤنج سے باہر جائیں گے اور تسلّی کرلیں گے کہ جماعت کا کوئی نمائندہ شمشاد صاحب کو لینے کے لئے موجود ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو وہ خود شمشاد صاحب کا انتظار کریں گے۔ جب باہر نکل کر میاں صاحب نے تسلّی کرلی کہ جماعتی نمائندہ موجود ہے تو پھر دوبارہ امیگریشن ایریا میں جاکر شمشاد صاحب کو اطمینان دلایا اور پھر خود ایئرپورٹ سے رخصت ہوئے۔
مکرم مبارک ملک صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میاں صاحب مجلس عاملہ کے ساتھ اجلاسات کے لئے گھنٹوں مسجد میں مصروف رہتے تو اپنا دوپہر کا کھانا ساتھ لے آتے۔ جب کھانا کھانے بیٹھتے تو سارا پھل موجود ممبران میں تقسیم کردیتے بلکہ سینڈوچ بھی آدھا کرکے ایک حصہ دوستوں کو دے دیتے۔ یہ منظر وہاں موجود دوستوں کے لئے بہت دلگداز ہوتا اور خدمت کرنے والوں کے لئے اُن کی شفقت کو ظاہر کرتا۔
مکرم ملک مسعود صاحب کے بیٹے کے ولیمہ کے موقع پر محترم میاں صاحب سٹیج پر چڑھتے ہوئے پھسل گئے اور انہیں چوٹ آگئی۔ آپ پھر بھی سیڑھیاں چڑھ کر سٹیج پر پہنچ کر دعا میں شریک ہوئے۔ واپسی پر آپ نے ذکر کیا کہ آپ کی ٹانگ میں چوٹ آئی ہے۔ مَیں نے (ہڈیوں کے ماہر) اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر اشفاق حسن صاحب کو فون کیا تو انہوں نے رات ایک بجے آکر زخم کا معائنہ کیا اور کہا کہ کل صبح ہی آپ کو ہسپتال لے جایا جائے۔ مَیں نے میاں صاحب سے کہا کہ آپ نے مجھے چوٹ کے متعلق اُسی وقت کیوں نہ بتادیا تاکہ علاج مہیا ہوسکتا۔ تو آپ نے فرمایا کہ ملک صاحب اتنے شیدائی کارکن ہیں۔ مَیں اُن کے خاص خوشی کے دن کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
آپ مجھے نصیحتاً کہا کرتے تھے کہ دیانتدار بننے کے لئے تمہیں لازماً سخت محنتی بننا ہوگا۔ تم ان میں سے ایک چیز کو دوسری کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔
آپ یہ بھی نصیحت کیا کرتے تھے کہ جس چیز سے تمہیں اپنے آپ کو بچانا ہے وہ یہ ہے کہ غلط عمل کا شائبہ تک نظر نہ آئے۔ چند سال پیشتر جماعت کو ایک گاڑی کی ضرورت تھی۔ ایک سٹاف ممبر اپنی کیڈلک گاڑی صرف پانچ ہزار میں فروخت کررہے تھے۔ گاڑی بہت عمدہ حالت میں تھی اس لئے مَیں نے مشورہ دیا کہ یہ گاڑی خریدلی جائے۔ آپ نے کہا کہ مَیں اس وقت مسجد بیت الرحمن کی تعمیر کے لئے دوسروں سے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم پر ہوں اس لئے خود کیڈلک پر سوار ہوکر نہیں گھوم سکتا۔ مَیں نے گاڑی کی انتہائی واجبی قیمت کے متعلق بتایا تو آپ نے کہا کہ کیا تم اس کے دروازہ پر یہ اعلان لگانا چاہتے ہو کہ اس کی قیمت صرف پانچ ہزار ہے اور جماعت کی رقم کا غلط استعمال نہیں ہورہا… غلط کام کی پرچھائیں سے بھی بچنا چاہئے۔
محترم میاں صاحب انتہائی منکسرالمزاج اور بے نفس انسان تھے۔ پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی کے موقع پر جماعت احمدیہ امریکہ کی طرف سے شائع ہونے والے سووینئر میں اُن سپوتوں کے مختصر کوائف اور فوٹو شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اس سووینئر میں میاں صاحب کا کوئی ذکر نہیں کیونکہ وہ خود اس کی اشاعت کررہے تھے اور انہوں نے اپنا تذکرہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔
اسی طرح جس دن ایک نیوز کانفرنس میں شامل نمائندے آپ کو His Excellency کہہ کر مخاطب کررہے تھے تو میری والدہ محترمہ نے آپ سے پوچھا کہ یہ الفاظ تو مرکزی وزراء وغیرہ کے لئے بولے جاتے ہیں۔ تو آپ نے جھجکتے ہوئے جواب دیا: مَیں وزیر ہوں۔ چنانچہ اُس روز ہم گھر والوں کو اتفاقاً علم ہوا کہ آپ وزارت کے منصب پر فائز ہیں۔
محترم میاں صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنے گھروں کو اسلام کی چھوٹی چھوٹی یونیورسٹیوں میں تبدیل کردینا چاہئے۔ آپ کا اپنا گھر اس کی عملی تصویر تھا جس کا ذکر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بھی ایک بار اپنی تقریر میں فرمایا تھا۔
دراصل آپ یہ یقین رکھتے تھے کہ پیشتر اس کے کہ آپ اپنے بچوں کے لئے کسی ایسے تربیتی منصوبہ کا آغاز کریں، آپ کا پہلے لازماً بچوں کے ساتھ ایک تعلق قائم ہوجانا چاہئے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے وہ میرے بڑھنے کے دَور میں میرے ساتھ بہت سا وقت گزارتے تھے۔ جب مَیں بڑا ہو رہا تھا تو ہمیشہ یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ جب کوئی اُن سے یہ کہتا کہ اس طرح وہ مجھے بگاڑ رہے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ اِس نے کبھی میری حکم عدولی نہیں کی اور اگر کوئی بچہ حکم عدولی نہیں کرتا تو وہ بگڑ نہیں سکتا۔ وہ میرے بچوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا برتاؤ کرتے۔
محترم میاں صاحب یہ یقین رکھتے تھے کہ نہ صرف بچوں کی اپنی حفاظت کے لئے بلکہ احمدیت کی مسلسل ترقی کے لئے بھی ان بچوں کی تربیت کرنا اور انہیں مستقبل کے لئے تیار کرنا ازحد ضروری ہے