محترم صوفی خدا بخش صاحب عبد زیروی
محترم صوفی خدابخش عبد زیروی صاحب یکم مارچ 1911ء کو زیرہ ضلع فیروزپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد سکھوں سے مسلمان ہوئے تھے۔ آپ کے والد کی شادی ایک بزرگ میاں نظام الدین صاحب کی لڑکی سے ہوئی۔ جب پہلے دو بچے فوت ہوگئے تو میاں نظام الدین صاحب نے جنگل میں جاکر خاص دعائیں کیں جن کے بعد محترم صوفی صاحب پیدا ہوئے۔
محترم صوفی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور پھر آپ کے والدین نے آپ کی خواہش پر آپ کو چرانے کے لئے چھ بکریاں خرید دیں۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں یہ بکریاں بیماری کے باعث مر گئیں تو آپ کو سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ وہاں عربی پڑھانے کیلئے ایک احمدی استاد محترم پیر حبیب احمد صاحب مقرر تھے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت چودھری علی شیر صاحبؓ بھی آپ کے ہاں آکر تبلیغی گفتگو کیا کرتے تھے۔ اُنہی کے ہاں سے آپ الفضل بھی لے کر پڑھتے رہے۔ جب اتحاد بین المسلمین کی تحریک چلی اور اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک عظیم الشان خطبہ اخبار ’’زمیندار‘‘ نے مکمل شائع کیا۔ اور اسے پڑھ کر محترم صوفی صاحب نے ایک دوست کے ساتھ مل کر اپنے علاقہ میں تحریک چلائی اور ایک جلسہ بھی منعقد کیا جس میں شرکت کے لئے قادیان سے محترم مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری تشریف لائے اور اِن کی تقریر سُن کر محترم صوفی صاحب پر اتنا اثر ہوا کہ آپ 1927ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان گئے۔ جب واپس آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ قادیان کیوں گئے تھے۔ آپ نے کہا کہ صرف دیکھنے کیلئے گیا تھا ، بیعت تو نہیں کی۔ لیکن اس کے بعد آپ پر ایسی سختی شروع ہوئی کہ آپ نے نماز پڑھنے کے لئے احمدیہ مسجد جانا شروع کردیا۔
1928ء میں میٹرک کرکے محترم صوفی صاحب نے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخلہ لے لیا اور اسی سال 20؍اگست1928ء کو مسجد اقصیٰ میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ چنانچہ اپنے گھر میں آپ سب سے پہلے احمدی ہوئے۔
محترم صوفی صاحب نے میٹرک کے بعد اپنے ہاتھ میں چھڑی رکھنی شروع کردی تھی۔ اس پر بچوں نے آپ کو صوفی کہہ کر چھیڑنا شروع کیا۔ پہلے پہل تو آپ برہمی کا اظہار کرتے رہے لیکن پھر یہ لفظ آپ کے نام کا حصہ بن گیا بلکہ آپکے چھوٹے بھائیوں کے ناموں میں بھی شامل ہوگیا۔
تقسیم ملک کے وقت جب حفاظتِ قادیان کیلئے رضاکار طلب کئے گئے تو محترم صوفی صاحب نے بھی اس تحریک پر لبیک کہا۔ لیکن چونکہ آپ لاہور میں تھے اور قادیان جانے کا کوئی سامان نہیں بن رہا تھا اس لئے کئی ماہ انتظار اور کوشش کے بعد آخر جنوری 1948ء میں کامیابی ہوئی اور آپ قادیان چلے گئے۔ وہاں چھ ماہ قیام کیا، پھر واپس تشریف لے آئے اور زندگی وقف کردی۔ آپ کی پہلی تقرری ربوہ میں دفتر کمیٹی آبادی میں ہوئی۔ جون 1955ء میں آپ کی اہلیہ اچانک وفات پاگئیں جس کے بعد محترم صوفی صاحب نے بڑی ذمہ داری سے بچوں کی نگرانی اور پرورش کی۔ سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور تینوں بیٹیوں کو بھی ایم۔ایس۔سی تک تعلیم دلواکر اُن کی شادیاں واقفین زندگی سے کی۔
1958ء میں جب تحریک وقف جدید کے تحت محترم صوفی صاحب نے وقف کیا تو آپ کی تقرری دفتر وقف جدید میں ہوگئی جہاں 1992ء تک آپ خدمت کی سعادت پاتے رہے، یہاں آپ نے بطور انسپکٹر، نائب ناظم مال، نائب ناظم ارشاد اور آڈیٹر کے طور پر کام کیا اور بیس سال تک مجلس وقف جدید کے سیکرٹری بھی رہے اور بطور نائب قائد تحریک جدید بھی خدمت بجالائے۔
محترم صوفی صاحب کو یہ خاص شوق تھا کہ پانچوں نمازیں ربوہ کی مختلف مساجد میں ادا کرتے۔ آپ کا ذکر خیر ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ دسمبر 1998ء میں آپ کے بیٹے مکرم کریم اللہ زیروی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍نومبر 1998ء میں محترم صوفی خدا بخش صاحب عبد زیروی کے ذکر خیر میں مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مجاہد صاحب مرحوم کے قبول احمدیت کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ آپ کا گھرانہ اہلحدیث تھا۔ خود احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ نے اپنے والدین اور بھائیوں کی نہ صرف بیعتیں کروائیں بلکہ وصیتیں بھی کروادیں۔ خود بھی آپ آٹھویں حصہ کے موصی تھے۔
محترم صوفی صاحب نے منشی فاضل اور B.A. تک تعلیم حاصل کی اور 14؍اگست 1947ء کو گورنمنٹ سروس ترک کرکے اپنی زندگی وقف کردی۔ فضل عمر ہسپتال کے احاطہ میں قائم مسجد یادگار کی تعمیر کی تجویز آپ ہی نے پیش کی تھی جو حضرت مصلح موعودؓ نے منظور فرمائی۔ محترم صوفی صاحب بہت دعاگو بزرگ تھے اور اُن کی زندگی قبولیتِ دعا کے بے شمار واقعات سے لبریز ہے۔