محترم عبدالرحیم صاحب دیانت
محترم عبدالرحیم دیانت صاحب ابتدائی تعلیم میں مثالی طالبعلم تھے لیکن بعض وجوہات کے باعث آپ کو تعلیم ترک کرکے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا پڑا اور کچھ عرصہ بعد قادیان میں سوڈا واٹر اور مٹھائی وغیرہ بنانے کا کام خود بھی شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کاروبار میں ایسی برکت دی کہ تقسیم ہند کے وقت آپ کی جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی لیکن ایمان کی یہ حالت تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے جب وقف جائیداد کا مطالبہ فرمایا تو آپ نے اپنی ساری جائیداد پوری بشاشت کے ساتھ پیش کر دی۔ کاروبار کے عروج کے زمانہ میں خدمت دین کا ایسا شوق تھا کہ کبھی کوئی سال ایسا نہ گزرا جب آپ نے ایک ماہ کیلئے وقف عارضی کی سعادت نہ حاصل کی ہو۔ آپ کی سیرت پر محترم عبدالباسط شاہد صاحب کے قلم سے ایک مضمون ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 23؍ جنوری 1997ء کی زینت ہے۔
آپ کی شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ کی اہلیہ محترمہ شدید بیمار ہو گئیں حتیٰ کہ بظاہر علاج کے باوجود ناامیدی بڑھتی گئی۔ آپ نے اُن کی تیمارداری کا حق اس طرح ادا کیا کہ دوسروں کو آپ کی صحت اور جان کا فکر ہونے لگا۔ پھر ایک روز مریضہ نے فرمائش کی کہ اسے مسجد اقصیٰ کے اس کنوئیں کا پانی پلایا جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام استعمال فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ یہی پانی آب شفا بن گیا اور پھر آپ کی 50سال سے زیادہ قابل رشک رفاقت رہی۔
آپ کی اپنے بچوں سے محبت بھی مثالی تھی۔ ایک بچہ ٹائیفائیڈ کا شکار ہو ا تو آپ کا کاروبار بظاہر بند ہو گیا۔ بچہ ہسپتال میں داخل تھا اور ہر دوسرے دن ایک بکرا صدقہ دیا جاتا رہا۔ آخر اللہ نے بچے کو شفا عطا فرمائی۔
لیکن اتنے محبت کرنے والے خاوند اور باپ کو جب درویشی کی سعادت نظر آئی تو پھر کوئی محبت اس کا راستہ نہ روک سکی۔ تقسیم ہند کے بعد جب افراتفری میں دینی کتب کی بے حرمتی ہونے لگی تو آپ نے کئی دن جان جوکھوں میں ڈال کر ہزاروں کتابیں خریدیں اور خود ہی ان کی جلد سازی بھی کی۔ گو آپ کو باقاعدہ تحصیل علم کا موقع تو نہیں مل سکا تھا لیکن علمی ذوق ایسا تھا کہ جمع شدہ ذخیرہ کی تقریباً ہر کتاب پر آپ نے نوٹ دئیے ہوئے تھے۔ ایک بار آپ نے اپنے بچے کو جوتا خرید کر دیا تو دوکاندار نے آپ کی مالی حالت کے پیش نظر سستا جوتا خریدنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ اس پر آپ نے بیان کیا کہ ’’میرا ارادہ ہے کہ اس بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر دین کی خدمت کے لئے اپنے خرچ پر غیر ممالک میں بھجواؤں‘‘۔
آپ کی وفات 1980ء میں 77 سال کی عمر میں ہوئی۔