محترم عبدالغنی فاروق آف تنزانیہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍ اگست 1997ء میں مکرم رفیق احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ جب 1973ء میں میں تنزانیہ کے شہر سونگیا پہنچا تو کسی کو وہاں میرے آنے کی اطلاع نہیں تھی لیکن بسوں کے اڈہ پر جونہی مکرم عبدالغنی فاروق صاحب کا نام لیا تو سب ہی بہت عزت سے پیش آئے۔
مکرم فاروق صاحب کی عمر 90 سال تھی۔ آپ گجرات کاٹھیاواڑ کے رہنے والے تھے اور کریانہ اور بیکری کی دوکان کرتے تھے۔ آپ نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے زمانہ میں قبولِ احمدیت کی توفیق پائی۔ مجھے تقریباً 3 سال آپ ہی کے ہاں قیام کا موقع ملا اور آپ کی خوبیوں سے آگاہی ہوئی۔ آپ دل کے بہت سخی تھے۔ جب میرے پاس قرآن کریم سیکھنے والے افریقیوں کی تعداد بڑھنے لگی تو مکرم فاروق صاحب نے ایک علیحدہ کمرہ اس مقصد کیلئے تعمیر کروایا اور نماز کیلئے بھی ایک بڑا کمرہ تعمیر کروایا۔ غریب اور نادار اکثر آکر آپ سے اپنی ضروریات کیلئے خوراک یا رقم لے جایا کرتے تھے۔ غیراحمدیوں کی ایک مسجد میں صفیں مہیا کرنا بھی آپ کا معمول تھا۔
مکرم فاروق صاحب نے اپنی اولاد اور نو احمدیوں میں بھی خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے کا مزہ پیدا کردیا تھا۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں ایک نواحمدی نے 500 شلنگ قرض کی درخواست کی۔ آپ نے پوچھا تمہارے پاس کتنی رقم ہے۔ اس کی بتائی ہوئی رقم میں آپ نے مزید کچھ ڈال کر 50 شلنگ کردیئے اور کہا کہ کل سے سبزی کی پھیری لگایا کرولیکن شام کو اپنی آمد پر چندہ ضرور نکالنا پھر یہ رقم ضرور بڑھے گی۔ چنانچہ اس نے اگلے ہی روز 70 پنس چندہ دیا اور چند روز میں ہی آہستہ آہستہ اس کے پاس کئی سو شلنگ جمع ہوچکے تھے۔ چنانچہ اس طرح آپ نے نہ صرف ایک نواحمدی کی مالی مدد کی توفیق پائی بلکہ اسکو چندہ کی برکات سے بھی روشناس کروادیا۔
مکرم عبدالغنی فاروق صاحب نے اپنی اولاد کے دل میں یہ بات بٹھادی تھی کہ جماعت کی خاطر قربانی کرنے میں کبھی تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرنا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد جب مسجد احمدیہ سونگیا کی تعمیر شروع ہوئی تو آپ کی اولاد نے دل کھول کر مالی اعانت کی اور قطعاً پرواہ نہیں کی کہ ان کے اپنے کاروبار کا رأس المال کم ہو جائے گا۔ اسی اثناء میں رقم ختم ہوگئی۔ چونکہ بارشوں کا موسم تھا اور کام جلد ختم کرنے کی ضرورت تھی اس لئے جمعہ کے روز میں نے چندہ کی خصوصی تحریک کی۔ اسی رات مکرم فاروق صاحب کے نواسے مکرم عبدالعزیز صاحب اپنے گھر سے اور اپنی خالہ کے گھر سے سب بہنوں ماؤں کا زیور اکٹھا کرکے لے آئے کہ اس کو بیچ کر کام مکمل کرلیا جائے۔