محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 13؍مئی 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۱؍ستمبر۲۰۱۴ء میں مکرم مظفراحمد درّانی صاحب کے قلم سے محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ جب خاکسار کی تقرّری غانا کے لیے ہوئی تو خاکسار مع فیملی۹؍اگست۲۰۰۴ء کو غانا پہنچا۔ قبل ازیں ایم ٹی اے پر حضورانور کے دورہ کی جھلکیوں میں دیکھا ہوا تھا کہ غانا کے خدام کا ایک مخصوص یونیفارم ہے لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ انصار اور لجنہ کا بھی مخصوص یونیفارم ہے بلکہ غانا سے حج پر جانے والے احمدی مردوں اور عورتوں کے بھی مخصوص یونیفارم ہیں۔ اس سلسلے کی تحریک تیس سال قبل محترم امیر عبدالوہاب صاحب نے کی تھی جو اب پوری طرح رائج ہوچکا ہے۔
محترم امیر صاحب کی سرپرستی میں جماعت اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی دیکھی۔ سرکاری میٹنگز میں جماعت کے نمائندگان مدعو کیے جاتے ہیں جبکہ جماعتی اجتماعات میں اعلیٰ سرکاری حکام شامل ہوتے ہیں۔ خاکسار کے ٹمالے میں قیام کے دوران نائب صدر مملکت نے وہاں کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تو دیگر مساجد ہونے کے باوجود وہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے اپنے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ احمدیہ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہماری دعوت پر انہوں نے مختصر خطاب میں یہ بھی کہا کہ ’’احمدیت سے اُن کا تعارف اُس وقت سے ہے جب وہ ٹمالے سیکنڈری سکول کے طالب علم تھے اور مولوی وہاب آدم صاحب وہاں دینی تعلیم دینے جایا کرتے تھے۔…‘‘ موصوف نے لندن کے اپنے وزٹ کے دوران حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے اور مسجد بیت الفتوح لندن دیکھنے کا بھی ذکر کیا۔
اکرا میں احمدیہ مشن اتنا معروف ہے کہ ٹیکسی والے کو صرف یہی بتانا کافی ہے، باقی ایڈریس بتانے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ غانا کے اجتماعات میں عوام الناس بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں چنانچہ ۲۰۰۸ء کے خلافت جوبلی جلسہ سالانہ نے تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے بڑا جلسہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ ایسے پروگراموں میں مَیں نے مکرم امیر صاحب کو کبھی کسی ضرورت کے لیے اُٹھ کر جاتے نہیں دیکھا۔ آپ شروع سے آخر تک پوری بشاشت کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما رہتے۔
غانا میں بین المذاہب کانفرنس بہت منظّم ہے۔ اس تنظیم کے زیرانتظام ہر سال کسی ملک میں عالمی کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ غانا کی تمام مذہبی تنظیموں کی طرف سے کئی سال تک محترم عبدالوہاب صاحب کو بطور نمائندہ اس کانفرنس میں خطاب کے لیے بھجوایا جاتا رہا ہے۔
آپ ڈسپلن کی پابندی کرتے اور اسی بات کی دوسروں سے بھی توقع رکھتے۔ ۲۰۰۵ء میں خدام کے سالانہ اجتماع میں فٹ بال کے میچ میں جھگڑا ہوگیا۔ مہمانوں میں غیرازجماعت بھی تشریف فرما تھے۔ عموماً یہی تأثر ہے کہ نومبائعین سے درگزر سے کام لیا جاتا ہے کہ آہستہ آہستہ تربیت اور نظام جماعت راسخ ہوجائے گا۔ مگر اس جھگڑے کے بعد آپ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اُس کی رپورٹ پر جماعت کو بدنام کرنے والے خدام کی اخراج از نظام جماعت کی سفارش کی۔ چنانچہ سزا ہوئی جس پر اُن خدام، اُن کے والدین اور انتظامیہ نے اپنی اصلاح کی اور توبہ و استغفار کرتے ہوئے معافی مانگی تب جاکر اُن کو معافی ہوئی۔
محترم عبدالوہاب صاحب نماز باجماعت کے بہت پابند تھے بلکہ اکثر سفر و حضر میں خود امامت کرواتے تھے۔ جلسہ اور اجتماعات کے موقع پر خود بھی اجتماعی نماز تہجد میں شامل ہوتے اور دوسروں کو بھی تحریک کرتے۔ بلکہ شامل نہ ہوسکنے والے اپنے بعض ساتھیوں سے بعد میں استفسار بھی کرتے۔ لمبا سفر کرکے بھی اگر کسی جگہ پہنچتے تو بڑھاپے اور تھکاوٹ کے باوجود نماز تہجد باجماعت سے کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔
آپ سر کی ٹوپی اور پاؤں کے جوتوں تک سفید لباس ہی استعمال کرتے تھے اور یہ آپ کی پہچان بن چکا تھا۔ جب کماسی کے پیراماؤنٹ چیف کی وفات ہوئی تو سارا شہر سیاہ ماتمی لباس میں تھا لیکن آپ نے چیف کے ورثاء سے رابطہ کرکے اپنے لباس کے حوالے سے اجازت لی اور پھر اُن کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔
آپ بچوں کے اجلاسات میں جاتے تو اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے پاس ٹافیاں بھی رکھتے۔ بچوں کو ٹافیاں دینے کا طریق یہ تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بند کرکے بچے سے پوچھتے کہ بوجھو ٹافی کس مٹھی میں ہے؟ جب تک بچہ بوجھنے میں کامیاب نہ ہوجاتا اُس کو موقع دیتے رہتے۔ ویسے ٹافی ہر بار آپ کی دائیں مٹھی میں ہی ہوتی۔
مرکز کی طرف سے آنے والی ہدایات پر فوری عملدرآمد کرکے رپورٹ مرکز میں بھجواتے۔ محترم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب سابق مبلغ غانا کا بڑی محبت سے ذکر کیا کرتے تھے جن کے ذریعے آپ کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے مرکز ربوہ آنے کی توفیق ملی۔
جب اکرا میں کوئی میٹنگ وغیرہ ہوتی تو وہاں ٹھہرنے والے مہمانوں کو ہمیشہ نماز فجر کے فوراً بعد اپنے گھر میں بلاکر خود چائے بناکر کیک کے ساتھ اُن کی تواضع کرتے۔ یہ کیک آپ کی بیگم صاحبہ نے تیار کیے ہوتے۔
مشن ہاؤس میں نصب ایک تختی پر تمام سابقہ امراء کے اسماء درج ہیں۔ اس فہرست میں آپ کے نام کے علاوہ باقی سب ناموں کے ساتھ الحاج کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ ایک بار خاکسار نے عرض کیا کہ اگر آپ بھی حج کی سعادت حاصل کرلیں تو تمام نیشنل امراء میں یہ بات مشترک ہوجائے گی۔ آپ نے کہا کہ میری بہت خواہش ہے اور کئی بار کوشش بھی کی ہے لیکن سعودی حکومت مجھے حج کا ویزا نہیں دیتی۔