محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 20؍مئی 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۲؍ستمبر۲۰۱۴ء میں مکرم مبارک احمد صاحب سابق پرنسپل احمدیہ سکول سلاگا رقمطراز ہیں کہ محترم مولانا عبدالوہاب صاحب ۲۲؍جون۲۰۱۴ء کو وفات پاگئے۔ خاکسار کو دو سال ۱۹۷۵-۱۹۷۶ء کا عرصہ آپ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ اَن گنت خوبیوں کے مالک، ایک ہردلعزیز اور ہمدرد امیر تھے۔ ہر ایک کے ساتھ محبت، اخوّت اور احسان کا سلوک تھا۔ دعا پر اس قدر پختہ یقین تھا کہ سکول کی نئی بلڈنگ کی تعمیر کے دوران کسی معاملہ میں مَیں نے پریشانی کا اظہار کیا تو جواب دیا کہ فکر نہ کریں اور جائے نماز بچھالیں۔
اپنے رفقائے کار کا احترام اور حوصلہ افزائی ہمیشہ کرتے۔ ایک کمرے کی چھت کا نقصان کسی وجہ سے ہوا تو مجھے فکر تھی کہ کہیں آپ ناراض نہ ہوں۔ لیکن آپ کا جواب آیا کہ فکر نہ کریں، میرا تو خیال تھا کہ شاید ساری چھت اُڑ گئی ہے۔ پھر جلد ہی رقم بھجوادی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے تعلیم الاسلام کالج میں اردو کانفرنس کو یہ سلوگن دیا تھا کہ ’’اردو ہماری قومی ہی نہیں بلکہ مذہبی زبان بھی ہے۔‘‘ محترم عبدالوہاب صاحب نے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ واقفین زندگی کے ساتھ اردو میں خط و کتابت کی اور اردو کو ایک مذہبی زبان سمجھتے ہوئے اس کی خدمت کی۔ ایک جلسہ سالانہ میں مَیں نے دیکھا کہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے کئی اقتباسات کو اردو میں پڑھا اور پھر اُن کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا۔
آپ کو واقفین کا بہت خیال رہتا۔ خاکسار نے سلاگا میں گرمی کے پیش نظر مٹی کے تیل سے چلنے والا فریج ذاتی طور پر خریدا۔ جب خاکسار پاکستان جانے لگا تو آپ نے پیغام بھجوایا کہ وہ فریج کسی کو نہ بیچنا، جو نیا واقف زندگی پاکستان سے آئے گا، اُس کےلیے چھوڑ جانا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس سکول میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب بطور پرنسپل متعین ہوئے۔
آپ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا بہت ادب سے نام لیتے۔ اُن کے قریب رہ کر لندن میں آپ کچھ عرصہ خدمت کی توفیق بھی پاچکے تھے۔ آپ افسوس سے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ حضرت چودھری صاحبؓ تو واقفین سے بڑھ کر جماعت کی خدمت کرتے ہیں مگر ہم میں سے چند واقفین بھی ایسا نمونہ نہیں دکھا پاتے۔