محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 20؍مئی 2024ء)

مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۱؍دسمبر۲۰۱۵ء میں مکرم سیّد شمشاد احمد ناصر صاحب کے قلم سے محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم عبدالوہاب صاحب پہلے افریقن مرکزی مبلغ اور امیر تھے۔ آپ برطانیہ میں بھی مبلغ رہے ہیں اس طرح یورپ کے بھی پہلے افریقن مبلغ تھے۔ آپ خداتعالیٰ کے فضل سے ایک بااثر شخصیت تھے اور اپنی دینی خدمات کی بجاآوری کے سلسلے میں گھانا سمیت بعض دیگر ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقاتوں کا شرف بھی پاتے تو انہیں قرآن کریم اور دیگر لٹریچر پیش کرتے۔

شمشاد احمد ناصر صاحب

خاکسار ۱۹۷۸ء میں غانا متعین ہوا اور چار سال یہاں خدمت کی توفیق پائی۔ محترم عبدالوہاب آدم صاحب کو انتہائی صبر کرنے والا، محنتی، اپنے کام میں مگن اور عبادت گزار واقف زندگی پایا۔ کسی بھی جگہ آپ کو بلایا جاتا تو ہمیشہ تشریف لے جاتے، سارے پروگرام میں شرکت فرماتے، لوگوں سے ملتے، تقریر کرتے، سوالوں کے جواب دیتے، ہر ایک کی بات بڑے تحمل سے سنتے، خواہ کوئی کتنا ہی بول رہا ہو اُسے بولنے دیتے اور پھر بعد میں حکیمانہ انداز میں سمجھا بھی دیتے۔ اکتاہٹ نام کو نہ تھی۔ آپ کی تقریر بہت پُراثر ہوتی۔
آپ کوئی جماعتی کام خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر نہ کرتے۔ ۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ غانا تشریف لائے تو آپ نے بڑی محنت سے حضورؒ کے دورے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اکرا ایئرپورٹ پر بیس ہزار سے زائد احمدیوں کا ایک جم غفیر استقبال کے لیے موجود تھا جو سفید لباس میں ملبوس تھا اور سفید رومال لہرا کر استقبال کررہا تھا۔ اکرا سے کماسی جاتے ہوئے کئی جگہوں پر میل ہا میل تک ہجوم کی شکل میں استقبال کرنے والے موجود ہوتے جن میں غیر بھی شامل تھے۔ حضورؒ کا قیام سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں تھا۔ اس سارے دورے کے دوران امیر صاحب نے بےشمار محنت کی اور دن رات جاگتے رہے۔ بیمار بھی ہوئے لیکن اس کا اظہار کسی پر نہیں کیا۔ آپ نے جماعت میں خلافت کی محبت اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا جو جذبہ پیدا کیا تھا وہ ہر ایک نے ہمیشہ محسوس کیا۔ آپ کا انداز بیان نہایت حکیمانہ ہوتا تھا۔ جب آپ خلافتِ خامسہ کے انتخاب کے بعد واپس غانا گئے تو بیان کیا کہ حضور ہر وقت خوش رہتے ہیں اور ملاقاتوں کے دوران یہ بالکل محسوس نہیں ہونے دیتے کہ اُنہیں کسی قسم کا کوئی فکر بھی ہے مگر آپ کے دل کی کیفیت کا صحیح اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب آپ مسجد فضل میں سوز اور درد میں ڈوبی ہوئی نماز پڑھاتے ہیں۔
۲۰۰۸ء کے جلسہ سالانہ غانا کو حضورانور نے بھی برکت بخشی۔ خاکسار کو بھی اس جلسے میں شمولیت کی سعادت ملی۔ اُن دنوں بھی باوجود انتہائی مصروفیت کے امیر صاحب فجر کی نماز کے بعد مشن ہاؤس میں مقیم تمام مہمانوں کو اپنے گھر لے جاتے اور اُن کی تواضع چائے، بسکٹ، مٹھائی اور دیگر لوازمات سے کرتے۔ اس کام میں کسی دوسرے کی معاونت پسند نہ کرتے اور مہمانوں کے ذوق کے مطابق خود اشیاء پیش فرماتے۔
آپ کو مقامی زبانوں کے علاوہ عربی، اردو اور انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا۔ ایک بار مجھے بھی شرمندہ کردیا جب اردو میں رپورٹ لکھتے ہوئے مجھے Activities کا متبادل اردو لفظ ذہن میں نہیں آرہا تھا تو فوراً کہنے لگے: مساعی۔
آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ خطوں کے جواب بڑی باقاعدگی سے دیتے تھے۔
آپ کے دَور میں جماعت احمدیہ گھانا نے جو ترقی کی اس کا راز آپ کی خدمت سے وابستگی اور غیرمشروط اطاعت ہی ہے۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا: ’’یہ ہیں نیک نیتی سے کیے گئے وقف کی برکات کہ دین کی خدمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی اعزازات سے بھی نوازا۔ اگر وقف نہ ہوتے تو پتہ نہیں کوئی اَور کام کررہے ہوتے تو پتہ بھی نہ ہوتا کہ کون ہیں وہاب صاحب!‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں