محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 13؍مئی 2024ء)

مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۹؍ستمبر۲۰۱۴ء میں محترم مولانا عبدالوہاب آدم صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم قریشی داؤد احمد صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کو گھانا میں سوا سات سال تک خدمت بجالانے کی توفیق ملی۔ اس دوران مرحوم کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

قریشی داؤد احمد صاحب

پاکستان سے گھانا آکر خدمت کرنے والے مربیان، اساتذہ اور ڈاکٹروں کے ساتھ آپ خاص شفقت فرماتے۔ کوئی بیمار ہوتا تو تیمارداری فرماتے اور علاج کے لیے بےچین رہتے۔کسی کے عزیز کی وفات کی خبر آتی تو نہ صرف تعزیت کے لیے جاتے بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت دیتے۔ ایک عظیم خلق اُن کا یہ بھی تھا کہ جب بھی ملاقات ہوتی تو اتنے تپاک اور خلوص سے ملتے گویا ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی ہو اور ہمیشہ بغلگیر ہوکر ملتے۔ حالانکہ بعض اوقات خاکسار ہر دوسرے تیسرے دن اکرا جایا کرتا تھا لیکن اُن کے ملنے اور مہمان نوازی کے انداز ہمیشہ وہی رہے۔ ملنے کے اس انداز میں کسی کی عمر، عہدہ یا بزرگی حائل نہ ہوتی تھی۔ ہر آنےوالے سے اسی تپاک سے ملتے تھے۔ بچوں کے لیے اپنی جیب میں ٹافیاں اور غبارے وغیرہ رکھا کرتے تھے۔ بچے بھی آپ کے اس وصف سے واقف تھے چنانچہ بھاگ کر آپ سے ملتے۔
کسی میٹنگ وغیرہ کے بعد جب کوئی روانہ ہونے لگتا تو آپ اپنی مصروفیات چھوڑ کر اُس کے ساتھ نیچے گاڑی کے پاس تشریف لاتے، پھر بغلگیر ہوکر ملتے، دعا کرواتے اور پھر روانہ کرتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کئی افراد رخصت ہو رہے ہوتے تو بھی آپ کا یہی طریق ہوتا۔ ایک بار جب خاکسار پاکستان میں رخصت گزار کر واپس اکرا (گھانا)پہنچا تو فلائٹ نے رات گیارہ بجے کے بعد پہنچنا تھا اس لیے مَیں نے ایئرپورٹ سے اپنے شہر ٹیما جانے کے لیے ایک دوست کو کہا ہوا تھا کہ وہ گاڑی لے آئے۔ خیال بھی نہ تھا کہ اتنی رات گئے کوئی اَوربھی آئے گا۔ لیکن رات کے اُس پہر بزرگوار عبدالوہاب آدم صاحب پر نظر پڑی جو ایئرپورٹ کے اُس دروازے میں کھڑے تھے جہاں سے جہاز سے اُتر کر ہم نے گزرنا تھا۔ آپ نے امیگریشن کے مراحل اپنی نگرانی میں طے کروانے کے بعد دعا کروائی اور پھر ہمیں ٹیما کے لیے رخصت کیا۔
خلافت سے بےپناہ عقیدت تھی۔ خلیفۂ وقت کی خدمت میں خط لکھتے ہوئے اگر کوئی غلطی ہوجاتی تو Tipp-ex لگاکر درستی کرنے کی بجائے پورا صفحہ دوبارہ لکھنے کو ترجیح دیتے۔ اردو زبان پر بھی بہت مہارت تھی۔ خط لکھواتے تو نہایت موزوں الفاظ کا انتخاب کرتے۔
گھانا اور انگلستان کا مقامی وقت ایک ہی ہے اس لیے خلیفہ وقت کا خطبہ جمعہ براہ راست وہاں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔ آپ خود مسجد میں بیٹھ کر سارا خطبہ سنتے اور پھر مقامی زبان میں اس کا خلاصہ بھی بیان کردیتے۔
بہت سے لوگ آپ سے بذریعہ خط و کتابت رابطہ رکھتے تھے۔ آپ ہر خط کا جواب لازماً دیتے تھے۔
۱۹۸۸ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جب گھانا کے دورہ پر تشریف لائے تو حضورؒ کی خدمت میں بازار سے خریدے ہوئے مشروبات پیش کیے گئے۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ناریل کی صورت میں آپ کو ان مشروبات سے بہتر اور سستا مشروب عطا فرمایا ہے، آپ وہ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ اس کے بعد سے محترم امیر صاحب اپنے مہمانوں کو (الّاماشاءاللہ) ناریل ہی پیش کرتے۔
آپ جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے مفاد کا بھی خیال رکھتے۔ رات گئے جب مصروفیات سے فارغ ہوتے تو مشن ہاؤس کا چکر لگاکر بلاوجہ جلنے والی لائٹس کو بجھادیتے اور اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرتے کہ باربار کی تلقین کے باوجود چوکیدار اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ آپ ذاتی طور پر تمام امور کی نگرانی کرتے۔ جلسہ سالانہ سے قبل ہونے والے وقارعمل کے موقع پر خود موجود ہوتے اور اگر کبھی کسی دوسری جگہ مصروف ہوتے تو بعد میں ضرور ’’بستان احمد‘‘ جلسہ گاہ جاکر کام کا جائزہ لیتے۔ اسی طرح اکرا کے ٹریڈفیئرورلڈ سینٹر میں کتب کی نمائش کا سٹال ہر سال لگایا جاتا تھا۔ آپ اس کے انعقاد میں ذاتی دلچسپی لیتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge & Truth کی اشاعت کے بعد تقریب رُونمائی کے سلسلے میں بہت اعلیٰ تقریب آپ نے اسی سینٹر میں منعقد کروائی۔
گھانا میں جلسہ سالانہ کے علاوہ ریجنل کانفرنسز بھی منعقد ہوتی تھیں جو تربیت کے لحاظ سے بڑی اہم تھیں۔ محترم امیر صاحب لمبے فاصلوں اور سفر کی دشواریوں کے باوجود ان میں شامل ہوتے۔ آپ دین کا وسیع علم رکھنے والے اور اُس علم کا برمحل استعمال کرنے والے بزرگ تھے۔ ۲۰۱۳ء میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر آپ نے جو خطاب فرمایا تھا وہ نہایت اعلیٰ تھا۔

2007 میں مکرم عبدالوہاب آدم صاحب(مرحوم) کو ان کی مختلف قومی خدمات کے اعتراف میں کیپ کوسٹ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی تھی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں