محترم عبد المنان ناہید صاحب کی شعری خدمات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7مئی 2012ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں نامور احمدی شاعر محترم عبدالمنان ناہید صاحب کی شعری خدمات کے حوالہ سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ حیف کہ نیا سال شروع ہوتے ہی سیدھی دلوں میں اترنے والی وہ آواز خاموش ہوگئی۔ ناہید صاحب کو پڑھ پڑھ کر ہم نے شعر کہنا سننا شروع کئے تھے۔ ہمارے ابّا جی مرحوم کو ناہید صاحب کے یا جگرؔ کے شعر بہت پسند تھے۔ بڑے ہوکر جب روشن دین تنویر صاحب کی وساطت سے ان سے ملاقاتیں ہونے کی صورت پیدا ہوئی تو ان کی طبیعت کی متانت اور آہستگی نے بہت متاثر کیا۔ ناہید صاحب نے اب آکر مشاعروں میں سننے سنانے کا سلسلہ شروع کیا ورنہ وہ سننے سنانے میں بہت نہ نکڑ کیا کرتے تھے مگر ہمارے گھر کے سالانہ مشاعرہ میں بطیبِ خاطر اپنا کلام عطا فرماتے تھے۔
ہم نے اُن کے کلام کو جماعت احمدیہ کے علم کلام کا بھرپور مظہر دیکھا۔ وہ دوسرے رسالوں میں چھپتے چھپاتے بھی نہیں تھے حالانکہ ان کی غزل بڑی زوردار ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انہیں تلقین کی تھی کہ وہ اپنے شعری ذوق کو رومانوی اور تخلیاتی بھول بھلیوں میں بھٹکنے میں ضائع نہ کریں بلکہ اس ہنر کو جماعت کے علم کلام کی ترویج میں صرف کریں۔ ناہید صاحب نے اس نصیحت کو پلّے باندھ لیا اور سلسلہ کے باہر کے پرچوں میں چھپنے سے گریزاں رہنے لگے۔
تنویر صاحب احمدی ہونے سے قبل ملک کے مشہور ادبی رسائل نیرنگ خیال، ادبی دنیا، رومان جیسے پرچوں میں تواتر سے چھپتے اور ملک کے مشہور شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ احمدی ہوگئے تو یک قلم ان رسائل میں چھپنا ترک کردیا۔ یہی حال سعید احمد اعجاز صاحب کا تھا۔ ناہید صاحب اسی روایت کے علمبردار بنے اور اپنے ساتھ جنرل محمود الحسن ایمن آبادی کو بھی اسی راہ پر لگالیا۔ ناہید صاحب کا کلام ایسا پختہ اور برجستہ ہوتا تھا کہ کوئی بھی ادبی پرچہ اسے شائع کرنے میں فخر محسوس کرتا مگر ناہید صاحب کلام بھیجتے ہی نہیں تھے تو باہر کے پرچوں میں کلام چھپتا کیسے؟
بزرگ شعراء جماعت میں حضرت حافظ مختار احمد شاہجہان پوری اور مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر کہ اپنے وقت کے نامور شعراء میں سے تھے قادیان آگئے تو باہر کے شعری حلقوں سے قطع تعلق فرما لیا۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے اُن سے کہا کہ آپ اس حلقہ سے قطع تعلق کر لیں گے تو اس حلقہ میں تبلیغ کون کرے گا؟
ناہید صاحب سے ایک بار راولپنڈی میں یادگار ملاقات ہوئی۔ ہمارے دوست اور کلاس فیلو ڈاکٹر طاہر محمود نے کوثر کلینک کے نام سے ایک سرجیکل ہسپتال قائم کر رکھا تھا جس میں ڈاکٹر جنرل محمود الحسن صاحب اپنی نشتر زنی کا مظاہرہ فرمایا کرتے تھے۔ ہم اپنی خوشدامن کے طبّی معائنہ کے لئے اُنہیں لے کر راولپنڈی گئے ہوئے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ جنرل ڈاکٹر نسیم احمد صاحب سے اپنی آنکھوں کا معائنہ بھی کروا لیں مگر جنرل نسیم کا دفتر کہتا تھا کہ اُن کے پاس اگلے دو ہفتے تک کوئی وقت نہیں۔ ہم ناہید صاحب سے ملنے کوثر کلینک پہنچے تو جنرل محمود الحسن صاحب نے پکڑلیا۔ اُن کی کتاب ’’شہد سم‘‘ انہی دنوں چھپ کر آئی تھی۔ اب صورت حال یہ بنی کہ جنرل محمود الحسن اپنا سرجیکل ماسک اتارتے ہوئے آپریشن تھیٹر سے نکلتے، ایک دو غزلیں سناتے اور پھر دوسرے آپریشن کے لئے سرجیکل ماسک چڑھا کر آپریشن تھیٹر میں چلے جاتے۔ اُس روز ان کی زندگی کا ایک نیا پہلو ہم نے دیکھا۔ سرجیکل کام بڑی توجہ اور یکسوئی چاہتا ہے۔ جنرل صاحب جس توجہ اور یکسوئی سے سرجیکل کام کر رہے تھے اُسی یکسوئی کے ساتھ غزلیں بھی سنا رہے تھے۔ فرماتے تھے آپریشن تھیٹر سے باہر آتے ہی مَیں سرجن کا ماسک اتار دیتا ہوں۔ مَیں نے لقمہ دیا ’اور شاعر کا ماسک پہن لیتا ہوں‘۔ فرمایا: ’’نہیں شاعری میرا ماسک نہیں ہے میری محبت ہے‘‘۔
ہم اس روز تین گھنٹے وہاں ٹھہرے۔ جنرل صاحب کا کلام سنا مگر ناہید صاحب نے سوائے ایک غزل کے اَور کوئی کلام عطا نہیں فرمایا۔ اُن کا کہنا تھا آج جنرل صاحب کا دن ہے۔ اتنے میں جنرل نسیم اتفاق سے تشریف لے آئے اور ہماری امّی کی آنکھوں کے معائنہ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ اس دن کی محفل کے حوالہ سے مدّتوں بعد ایک غزل ہوئی جس میں ساری تلمیحات یکجا ہو گئیں۔ اس کی زمین تھی:’’سبزہ کو پامال شاخوں کو قلم کرتے رہے‘‘۔
مطلع ہوا ۔ ؎
وہ ستم کرتے رہے اور ہم کرم کرتے رہے
اپنا اپنا کام دونوں دمبدم کرتے رہے
فتنہ گر گھولا کئے جو زہر ، محمود الحسن
برسرِ کوثر اسی کو ’’شہدِسم‘‘ کرتے رہے
حضرت ناہیدؔ کے شعروں سے ہم بھی عمر بھر
دل کو خوش کرتے رہے آنکھوں کو نم کرتے رہے
تعلیم الاسلام کالج کے مشاعرے پاکستان بھر میں مشہور تھے۔ ملک کے بڑے بڑے شعرا ان مشاعروں میں آنا اپنے لئے باعث عزت افزائی سمجھتے تھے۔ مگر ناہید صاحب کالج کے مشاعروں میں اس لئے شریک نہیں ہوتے تھے کہ یہ مشاعرے جماعتی اجتماعات کے موقعہ پر منعقد نہیں ہوتے تھے اور وہ مرکز میں صرف جماعتی ضرورت سے حاضر ہوا کرتے تھے۔ محض مشاعرہ کے لئے سفر اختیار کرنا انہیں مناسب معلوم نہیں دیتا تھا۔ وہ اس عذر پر ثابت قدم رہے۔ بعدازاں ایوان محمود میں بعض جماعتی اجتماعات کے موقعوں پر مشاعرے ہوئے تو ان میں شرکت فرمائی۔ حضرت صاحب کی ہجرت کے بعد تو اُن میں بہت تبدیلی آگئی۔ مشاعروں میں اپنا کلام سنانے سے اِنکار کرتے رہے۔ لیکن ایم ٹی اے کی برکت سے ان کا نام اور کام دنیا کی نگاہ میں آنے لگا۔
کئی سال قبل آپ نے اپنا ایک مجموعۂ کلام مرتّب فرما کر اس حقیر کو بھیجا کہ میں اس پر اپنا تبصرہ لکھوں جسے وہ دیباچہ کے طور پر شامل کر کے مجموعہ شائع کریں گے۔ مگر اُن کا مسودہ میری عدم موجودگی میں اُس وقت ربوہ پہنچا جب میں ہجرت کر کے سویڈن جا چکا تھا اور میری بدقسمتی کہ اس خدمت سے محروم رہا۔ جب مجموعۂ کلام چھپا تو ناہید صاحب نے مجھے بھجوایا۔ بہت جی چاہتا رہا کہ اس کلام پر اپنا تبصرہ لکھوں مگر توفیق نہ ملی۔ اب تبصرہ تو انشاء اللہ لکھا ہی جائے گا مگر حیف ہے ناہید صاحب اسے ملاحظہ نہ فرماسکیں گے۔ ناہید صاحب کے اٹھ جانے سے احمدیہ علم کلام کی شعری روایت میں ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو مشکل سے ہی پُر ہوگا۔