محترم عرفان احمد ناصر شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 دسمبر 2010ء میں مکرم عطاء القدوس صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ اپنے چھوٹے بھائی محترم عرفان احمد ناصر شہید (عرف مٹھو) کا ذکرخیر کرتے ہیںجو 28 مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید کردیئے گئے۔
محترم عرفان احمد ناصر شہید کی پیدائش دارالذکر سے ملحقہ کوارٹر میں 29مارچ 1978ء کو ہوئی۔ چونکہ ان کا بچپن، لڑکپن اورجوانی دارالذکرمیں گزری اس حوالہ سے ان کو دارالذکر سے گہرا لگاؤ تھا۔ جب بھی دنیاوی کا م کاج سے فرصت ملتی تو یہاں چلے آتے۔ خدمت ِ دین میں پیش پیش، پانچ وقت کے نمازی، انتہائی ملنسار، والدین کے انتہائی خدمت گزار۔ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیا ر کرنے والے متوازن طبیعت کے مالک تھے۔ پُرکشش شخصیت تھی۔ مناسب قد، گندمی رنگ اور چہرے پر خوبصورت آنکھیں اس کی شخصیت میں اور بھی نکھار پیدا کرتی تھیں۔
ہمارے خاندان میں احمدیت میرے دادا محترم دین محمد صاحب کے ذریعہ آئی۔ آپ نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ آپ دریا کے کنارے ایک ٹیلہ پر کھڑے ہیں اور کچھ فاصلے پر حضرت مصلح موعودؓ لوگوں میں کچھ بانٹ رہے ہیں۔ حضورؓ کی نظر آپ پر پڑی تو فرمایا: تم بھی یہ لنگر لے لو ورنہ پیچھے رہ جائوگے۔ اس رؤیا کے بعد آپ نے بیعت کرلی۔ بعدازاں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ میرے ہاں اولاد متوقع ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نیک صالح اولاد عطا فرمائے۔ حضورؓ کی طرف سے جواب موصول ہوا ’’بیٹا ہوگا ،نام عبدالمالک، خادمِ دین ہو گا‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میرے والد محترم عبدالمالک صاحب کی پیدائش ہوئی جنہیں اللہ کے فضل و کرم سے تادمِ آخر خدمتِ دین کی بہت توفیق ملی۔
ہمارے پڑنانا حضرت بابا نور احمد صاحب خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے باورچی رہے۔ ہماری پڑنانی حضرت حسین بی بی صاحبہؓ حضرت امۃ القیوم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعودؓ کی رضاعی والدہ تھیں۔
محترم عرفان احمد ناصر بہت بہادر تھے۔ اکثر دارالذکر کے باہر گیٹ کے سامنے ٹریفک کنٹرول کی ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔28مئی 2010ء کو بھی اپنی ڈیوٹی پر سینہ سپر مردانہ وار کھڑے تھے اور حملہ کی ابتدا میں ہی شہادت پانے والوں میں شامل ہوئے۔ ان کو پانچ گولیاں لگیں جن میں دو سینہ پر لگیں۔ دو سے اڑھائی گھنٹے دارالذکر کے مرکزی دروازہ کے پاس آپ کا جسم پڑا رہا اور خون بہتا رہا۔ شہادت سے چند روز قبل آپ نے اپنے ایک دوست کو کہا تھا کہ اگر حملہ ہوا تو دشمن میری لاش پر سے گزرکر ہی اندر جاسکے گا۔
نیز اپنی شہادت سے چندروز قبل گھر کے گیٹ پر حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر بطور سٹیکرلگایا۔
راہِ مولا میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں
موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہو جاؤ
عرفان شہید گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ آپ کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔
شہید مرحوم میں خدمتِ خلق کاجذبہ بھی نمایاں تھا۔ شہادت کے روز بھی صبح اپنے ایک ہمسائے کی گاڑی کے پنکچر ٹائر کو خود اتار کر ٹھیک کروایا اور واپس لاکر گاڑی میں لگایا۔ اُن کی خدمت کا انداز ہر ایک کو خوش کردینے والا تھا اور اس میں وہ کبھی مذہب یا رنگ و نسل کا فرق نہیں کرتے تھے۔
شہید مرحوم کے والدین وفات پا چکے ہیں اور پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور بہن بھائی شامل ہیں۔ شہید مرحوم موصی تھے۔