محترم عزیز احمد صاحب کا قبول احمدیت
مکرم محمد ضیاء الحق صاحب اپنے مکتوب مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جنوری 1998ء میں اپنے تایا زاد بھائی محترم عزیز احمد صاحب کیلئے درخواستِ دعا کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میرے والد محترم منشی نبی بخش صاحب نے 1924ء میں احمدیت قبول کی لیکن کسی طرف سے آپ کی کوئی مخالفت نہ ہوئی۔ آپ قادیان سے کتب منگوایا کرتے تھے جو میرے تایا کے زیر مطالعہ بھی رہا کرتیں۔ میرے تایا مکرم چودھری غلام محمد صاحب 1935ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ضلع میں ڈپٹی کمشنر کی مشاورتی کمیٹی کے رکن بنے اور پھر زمینداروں کے قرضہ جات کے مصالحتی بورڈ میں منصف ہوگئے۔ آپ کے بیٹے محترم عزیز احمد صاحب جماعت دہم میں تھے اور میں جماعت ششم میں جب ایک دن سکول کا کام کرتے ہوئے ان کی فرمائش پر کھانے کیلئے کچھ لینے میں گھر گیا تو واپسی پر اچانک اباجان تشریف لے آئے جن کے دریافت کرنے پر میں نے فوراً میز پر سے ایک کتاب اٹھا کر کہا کہ یہ کتاب لینے آیا تھا۔ کتاب کا نام تھا ’’حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے‘‘۔ واپس آکر یہ واقعہ بھائی عزیز صاحب کو سنایا اور کتاب انہیں دی۔ انہوں نے پوری کتاب پڑھ ڈالی اور خاموش لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد جب ہم مسجد جا رہے تھے تو مسجد کے کونے پر پہنچ کر وہ یکایک رُک گئے، چند لمحے خاموش رہنے کے بعد انہوں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر کہا ’’ضیاء تم گواہ رہنا کہ آج سے میں احمدی ہوں‘‘۔
بھائی عزیز احمد میٹرک کرکے کپورتھلہ کالج چلے گئے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آئے تو اعلان کردیا کہ وہ بھی احمدی ہیں۔ تایا جان نے پہلے تو سمجھایا اور آخرکار گھر چھوڑجانے کا کہا۔ اس پر بھائی عزیز اباجان کے مشورہ سے قادیان چلے گئے۔
بھائی عزیز احمد اپنی بہن کی وفات کے بعد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے چنانچہ اس صدمہ سے والدہ کی بینائی مسلسل آنسو بہاتے بہاتے ختم ہوگئی اور آخر والد نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بیٹے کی واپسی کیلئے پیغام بھیجا۔ اور بھائی عزیز واپس آگئے۔ کئی سال بعد آپ کے والد کو بھی قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوگئی۔
جب بھائی عزیز BA کرچکے تو میں نے انہیں ملازمت کے لئے دہلی آنے کی ترغیب دی۔ جب دہلی میں حضرت مصلح موعودؓ کے جلسے میں بعض شرپسندوں نے حملہ کیا اور حضورؓ نے فرمایا کہ تم میں سے ایک سو نوجوان اٹھیں اور زنانہ جلسہ گاہ کا گھیرا ڈال لیں … تو بھائی عزیز جو سخت قسم کی خونی پیچش سے نڈھال تھے لڑکھڑاتے ہوئے باہر جانے لگے۔ میں نے روکنے کی کوشش کی تو سختی سے کہا کہ تم نے حضرت صاحب کا ارشاد نہیں سنا۔ … جب وقف کی تحریک ہوئی تو آپ نے بھی لبیک کہنے کی سعادت پائی۔ قادیان میں آپ کی تعیناتی دفتر محاسب میں ہوئی اور قیام دارالواقفین میں رہا۔ قیام پاکستان کے بعد ابھی جودھا مل بلڈنگ میں ہی تھے کہ آپ کو ہلکا بخار شروع ہوگیا، یہ بیماری بڑھتی گئی لیکن آپ نے خدمت جاری رکھی۔ بعد میں بیماری تپ دق میں تبدیل ہوگئی۔ جب حضورؓ بغرض علاج یورپ تشریف لائے تو بھائی عزیز کو بھی ازراہ شفقت علاج کے لئے اپنے ہمراہ لے آئے۔ آپ پہلے انگلینڈ اور پھر سوئٹزرلینڈ میں زیرعلاج رہے۔ اس دوران حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کی کارکردگی کی تعریف فرمائی کہ آپ نے وقف زندگی کی روح کو سمجھ کر خدمت کی توفیق پائی ہے۔