محترم قریشی محمدعبداللہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی2008ء میں مکرم ڈاکٹر احسان اللہ قریشی صاحب نے اپنے والد محترم قریشی محمد عبداللہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم قریشی محمد عبداللہ صاحب قادیان کے قدیمی رہائشی حضرت قریشی شیخ محمد صاحبؓ کے ہاں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے پہلے جو اولاد ہوتی تھی وہ جلد فوت ہوجاتی تھی۔ آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خدمت میں لے گئے اور دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ نے بچہ کو گود میں لیا، دعا کی اور محمد عبداللہ نام رکھا۔ پھر فرمایا: ’’یہ صحت والی لمبی عمر پائے گا‘‘۔
محترم قریشی صاحب نے 92 سال کی طویل اور فعال عمر پائی۔ آپ بچپن سے ہی سخت جان تھے اور ورزش کے عادی تھے۔ آپ کے والد چٹھی رساں تھے۔ ایک دفعہ قادیان کے قریبی گائوں کے کسی ہندو کا خط تھا اور اُس دن بارش ہو رہی تھی۔ آپ نے اپنے والد سے وہ خط لیا اور اُسی موسم میں اُس ہندو کو پہنچایا جس پر اُس نے آپ کو ایک ر وپیہ انعام دیا۔
آپ نویں میں پڑھتے تھے کہ شادی ہوگئی۔ میٹرک کے بعد کچھ عرصہ فاضلکا میں ایک خاندان کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ پھر بعض اور جگہ بھی ملازمت کی مگر سکون نہ ملا۔ کچھ دیر اخبار البدر میں بطور منشی کام کیا۔ اور پھر صدر انجمن احمدیہ میں جونیئرکلرک بھرتی ہوگئے اور 62 سال دینی خدمت بجالائے۔ ریٹائرمنٹ سے قبل بطور آڈیٹر 18 سال خدمت کی۔
1947ء میں تقسیم ہند کے وقت آپ نظارت خزانہ میں ملازم تھے۔ ایک صبح بازار میں ناشتہ کا سامان خریدنے گئے تو پیغام ملا کہ فوراً دفتر پہنچیں۔ دفتر پہنچنے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمایا کہ جہاز تیار ہے اور خزانہ اس میں رکھا ہے، آپ ابھی لاہور چلے جائیں (جماعت نے ان دنوں دوسیٹر جہاز خریدے تھے)۔ آپ نے ناشتہ کا سامان ایک دوست کے حوالہ کیا اور لاہور چلے آئے۔ جودھامل بلڈنگ کے ایک کمرہ کو منتخب کرکے خزانہ وہاں منتقل کیا۔ پھر قریباً دن رات اُسی کمرہ میں آپ کا وقت گزرنے لگا۔ بعد میں آپ کے اہل خانہ بھی ٹرک کے ذریعہ لاہور بھجوائے گئے۔ اور پھر تکلیف اور تنگی کا لمبا وقت آپ سب نے صبر شکر سے گزارا۔ آخر پہلے چنیوٹ اور وہاں سے چند سال بعد ربوہ منتقل ہوئے۔
ربوہ میں آپ نظارت خزانہ میں تھے کہ ایک دن ایک سو روپے کم ہوگئے۔ اگلے دو روز مزید ایک ایک سو روپے کم ہوتے گئے۔ انتہائی پریشانی ہوئی لیکن کسی دوسرے پر الزام دینے کی بجائے ایک ویرانے میں جاکر نہایت تضرّع سے دعا کی۔ پھر دفتر میں جاکر بیٹھے تو تین بار زوردار آواز آئی: ’’چور احمددین ہے‘‘۔ آپ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور اپنے ساتھیوں سے بھی پوچھا لیکن کسی اَور نے کوئی آواز نہیں سنی تھی۔ پھر آپ نے امورعامہ جاکر سارا معاملہ مکرم عزیز بھامبڑی صاحب کو بتایا تو انہوں نے نظارت خزانہ کے چوکیدار احمددین کو بلاکر بازپرس کی تو اُس نے چوری کا اقرار کرلیا۔
کچھ عرصہ بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ نے آپ کو کالج میں بطور ہیڈ کلرک بلا لیا۔ یہاں آپ نے F.A. اور پھر B.A. کیا۔ اور آپ آفس سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوگئے۔
آپ 1970ء میں آڈیٹر صدرانجمن مقرر ہوئے۔ اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے نئے قواعد بنانے میں پوری جانفشانی سے حصہ لیا۔ پنشنروں کی پنشن میں اضافے اور خصوصاً بیواؤں کی پنشن مقرر کرنے کی درخواست بھی آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے کی جو منظور ہوئی۔ اس سے قبل بیوائوں کی پنشن نہیں تھی۔ حضورؒ کے ارشاد پر آپ بعض جماعتوں کا آڈٹ کرنے دیگر شہروں میں بھی جایا کرتے تھے۔
جماعتی نظام کی اطاعت کا آپ کو اس قدر احترام تھا کہ 1974ء کے ہنگاموں کے دوران جب ربوہ کے خدام پہرہ دیا کرتے تھے تو ایک روز آپ کے بیٹے بیماری کے باعث ڈیوٹی پر نہ جاسکے تو مکرم قریشی صاحب نے خود جاکر پہرہ دیا۔
آپ دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم کرنے والے، حد درجہ متوکل اور بہت دعاگو تھے۔ ایک بار آپ کی زبان پر ایک تکلیف دہ دانہ نکل آیا۔ لاہور میں ڈاکٹروں نے کینسر کا شک کیا اور زبان کا وہ حصہ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ آپ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جو زبان خدا کا ذکر کرے اس کو آنچ نہیں آ سکتی اور واپس ربوہ آگئے۔ پھر وہ زخم بغیرعلاج کے خود ہی ٹھیک ہو گیااور آپ قریباً 25سال اس کے بعد زندہ رہے۔
مَیں نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے بچوں کو آپ کے پاس چھوڑا اور خود پوسٹ گریجوایشن کرنا چاہی تو پڑھائی انتہائی مشکل لگی۔ چنانچہ گھبراکر امتحان سے قبل آپ کو بتایا کہ میرا پاس ہونا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ اس پر آپ نے نہایت زور سے فرمایا یہ کس طرح ممکن ہے کہ میرا خدا میرے ساتھ کئے ہوئے وعدے پورے نہ کرے۔ اگرچہ امتحان کے دوران ایسا وقت بھی آیا کہ میں سوچتا تھا کہ امتحان چھوڑ کر بھاگ جاؤں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر رکاوٹ کو ختم کرکے مجھے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جب آپ کو نتیجہ سنایا تو اُسی وقت روتے ہوئے سجدہ ریزہ ہو گئے۔
مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ آپ کی تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ خود پوری فرمادیتا بلکہ آپ کی ضرورتوں کے لئے اگر مجھے بھی کچھ رقم درکار ہوتی تو غیبی امداد کے طور پر کہیں سے موصول ہوجاتی۔ آپ اپنی وصیت کے کاغذات اور واجبات ہمیشہ کلیئر رکھتے تھے۔ تدفین سے کچھ گھنٹے قبل نظارت بہشتی مقبرہ کے ایک کارکن نے کہا کہ آپ کی وصیت کی رقم پوری نہیں ملی۔ میں نے عرض کی آپ حساب کر دیں میں بقایا ادا کردیتا ہوں۔ رات کو میرے بھائی پروفیسر امان اللہ صاحب کو خواب میں اباجی ملے جیسے بہت عجلت میں ہوں اور تھوڑے غصہ میں بھی۔ فرمایا کہ انہیں کہہ دیں کہ اپنے رجسٹر دوبارہ چیک کریں میرا حساب صاف ہے۔ اگلے دن میں دفتر گیا تو وہ صاحب رجسٹر چیک کر رہے تھے۔ میں نے انہیں خواب سنا دیا تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے واقعی رقم پوری ہے اور مجھے غلطی لگی تھی۔
جفا کشی آپ کی گھٹی میں تھی۔ ہمارے مٹی کے بنے ہوئے گھر کی دیواریں اکثر بارش کے بعد گر جاتی تھیں تو آپ یہ دیواریں خود بناتے۔ پروفیسر بھائی کو گارا بنانے کا حکم ہوتا اور مَیں اُن کو اینٹیں پکڑانے کے لئے مستعد ہوتا۔ پوری کوشش کرتے کہ خرچ کم سے کم ہو اور جو رقم بچے وہ چندہ میں دیدی جاتی اپنی وفات تک اپنے چندہ کے علاوہ اپنی والدہ، والد اور میری والدہ مرحومہ کے تمام چندہ جات باقاعدگی سے ادا کیا کرتے۔ تحریک جدید کے صف اوّل کے مجاہد تھے۔
اپنے سارے کام بشمول جوتا مرمت کرنا اور حجامت کرنا وغیرہ خود کرتے۔ پھر بچوں کو پڑھانے کے علاوہ کپڑے دھونے، سینے پرونے اور سالن بنانے میں بھی گھر والوں کی مدد کرتے۔ قرآنی حکم کے تابع اقرباء کا خیال رکھتے۔ چنانچہ ہمارے ایک فاترالعقل ماموں کو گھر میں رکھ کر اُن کا ہر طرح سے خیال بھی رکھا۔
ابا جی کو سلسلہ احمدیہ سے بے پناہ عشق تھا۔ آخری عمر میں نسیان کی سی کیفیت ہو گئی تھی اور ایک بات کو کئی بار دہراتے تھے مگر جب کبھی کسی مخالف کے اعتراض کا ذکر ہوتا تو فوراً اٹھ کر بیٹھ جاتے اور چہرہ پر جلال کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ پھر اعتراض کا جواب دلائل سے دیتے۔
آپ کو مجلس انصاراللہ کا آڈیٹر رہنے نیز دارالقضاء میں بطور قاضی خدمت کی بھی توفیق ملی۔
جن دنوں آپ کے سارے بچے زیر تعلیم تھے تو اخراجات پورے کرنے کے لئے آپ نے ٹائپنگ سیکھی اور اس طرح بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتے۔ بعض دفعہ کثرت ٹائپ سے آپ کی انگلیاں درد کرتیں اور ہم بچے آپ کی انگلیوں پر تیل کی مالش کرتے۔
آپ رات کو جلد سوتے اور صبح باقاعدہ تہجد ادا کرتے۔ ہمیں بھی اس کی عادت ڈالی۔ فجر کے بعد سیر بھی کرتے۔ اپنے بچوں اور بھتیجوں کے ساتھ دوست بن کر فٹ بال کھیلتے۔ یہ سلسلہ پوتوں کے ساتھ بھی جاری رہا۔ ہمیں مطالعہ کی عادت بھی ڈالی۔ یہ بھی عادت ڈالی کہ آمد ہو تو پہلے چندہ ادا کریں۔ بڑوں کی عزت کرنا اور اُن سے دعا لینے کی تلقین کرتے۔ ہمارے محلہ کے امام مسجد حافظ محمد رمضان صاحب نابینا تھے اور ابا جی نے مجھے ہدایت کی ہوئی تھی کہ انگلی پکڑ کر مسجد جانے میں اُن کی راہنمائی کروں اور دعائیں لوں۔

ایک ضروری تصحیح
ایک گزشتہ اشاعت (2؍جولائی 2010ء) کے اسی کالم میں محترم قریشی محمد عبداللہ صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم احسان قریشی صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس مضمون میں یہ امر خلاف واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ محترم قریشی صاحب اپنے ہمراہ زرکثیر قادیان سے لاہور لائے تھے۔ چنانچہ ’’تاریخ احمدیت‘‘ (جلدنہم صفحہ 720) سے محترم قریشی صاحب مرحوم کی ہی ایک تحریر اختصار سے پیش ہے:
مکرم قریشی محمد عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ارشاد تھا کہ محاسب صدر انجمن احمدیہ (مرزا عبد الغنی صاحب) فوراً لاہور بذریعہ ہوائی جہاز چلے جائیں اور اپنے ساتھ کوئی ہوشیار کارکن جسے وہ پسند کریں ساتھ لے جائیں اور وہاں دفتر محاسب و امانت set کریں اور اپنے ساتھ روپیہ بھی لیتے جائیں۔ چنانچہ مرزا عبد الغنی صاحب 19؍اگست 1947ء کو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد سے دفتر خزانہ صدر انجمن احمدیہ سے خزانہ کا روپیہ لے کر دارالانوار پہنچ گئے اور بذریعہ ہوائی جہاز لاہور روانہ ہوگئے۔ آپ نے روانگی سے قبل خاکسار کو جو اس وقت دفتر محاسب و امانت کا ہیڈ کلرک تھا، ہدایت فرمائی کہ کل صبح نماز فجر کے معاً بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ہدایات لے کر لاہور پہنچ جاؤں جس کی تعمیل میں خاکسار دوسرے دن 20 ؍اگست کو ہفتہ کے روز نماز فجر مسجد اقصیٰ میں ادا کرتے ہی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا اور اندر چٹ اپنے نام کی بھیج کر ہدایت چاہی جس پر حضرت میاں صاحب نے سرخی سے نوٹ فرمایا: ’’لاہور ابھی چلے جائیں۔ جہاز دارالانوار میں تیار ہوگا۔ اپنے ساتھ صرف دفتر کا ضروری سامان دفتر چلانے کے لئے جو دس سیر سے زائد نہ ہو لے جا سکتے ہیں‘‘۔
میں بجائے اس کے گھر جاتا جو وہاں سے صرف پانچ چھ منٹ کا راستہ تھا دفتر محاسب پہنچا اور وہاں سے کچھ رسیدات اور دو ایک ضروری رجسٹر ساتھ لئے اور خزانہ کے پہرہ دار کو کہا کہ میرے گھر پیغام دیدیں کہ مَیں حضور کے ارشاد کی تعمیل میں لاہور جارہا ہوں۔ میں بھاگا بھاگا دارالانوار پہنچا۔ وہاں مسجد دارالانوار کے پاس جہاز اڑان کے لئے سٹارٹ ہوچکا تھا۔ اس کے پائلٹ سید محمد احمد صاحب تھے۔ مَیں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی چٹ اُن کو دی تو انہوں نے ایک آدمی کو جو پہلے جہاز میں لاہور جانے کے لئے بیٹھا تھا اُتار دیا اور مجھے اس میں بٹھالیا۔ میں نے رجسٹر وغیرہ جہاز میں رکھے اور جہاز میں بیٹھ گیا۔ میرے بیٹھتے ہی جہاز لاہور کے لئے اڑان کر گیا۔ لاہور ہم صرف نصف گھنٹہ میں پہنچ گئے۔ یہاں ہوائی اڈہ پر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ مجھے انہوں نے اپنی کار میں بٹھایا اور کوٹھی 23 ٹمپل روڈ لاہور میں (جو صدر انجمن کی ملکیت ہے) پہنچے۔ یہاں اس وقت لاہور شہر اور بیرو نجات سے احمدی احباب فسادات کے سلسلہ میں حملوں اور شہر میں جو لُوٹ مار ہو رہی تھی کے باعث مکرم شیخ صاحب سے مشورے کرنے آرہے تھے۔ مجھے توحکم ہوا کہ میں وہاں کوٹھی میں دفتر قائم کرلوں اور جو احباب چندہ جات وغیرہ دیتے ہیں، اُن سے چندہ لینا شروع کردوں۔ مَیں نے باوجودیکہ کوٹھی میں تل دھرنے کوبھی جگہ نہ تھی ایک کونے میں کرسی لگا کر کام شروع کر دیا۔ چونکہ ابھی قادیان کی حفاظت کے سلسلہ میں سامان اور رضاکار بھجوائے جارہے تھے جس کے لئے شیخ صاحب مکرم پہلے پرچی جاری کرتے اور محاسب صاحب کی تصدیق سے مَیں ادائیگی کردیتا تھا۔ …‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں