محترم قریشی نورالحق تنویر صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍فروری 2001ء اور 16؍مارچ 2001ء میں محترم قریشی نورالحق تنویر صاحب کی وفات اور آپ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے مختصر ذکر خیر کیا گیا ہے۔
آپ 3؍ستمبر 1931ء کو حضرت مولوی قریشی سراج الحق صاحبؓ پٹیالوی کے ہاں پیدا ہوئے جنہیں 1894ء میں چاند و سورج گرہن کا نشان دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت عطا ہوئی تھی اور وہ بعد ازاں لمبے عرصہ تک پٹیالہ کے سیکرٹری مال اور امیر جماعت بھی رہے۔ 30؍نومبر 1954ء کو لاہور میں وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک ہوئے۔ محترم قریشی صاحب کی والدہ سہارنپور کی رہنے والی تھیں اور آپ کے بچپن میں ہی اُن کا انتقال ہوگیا تھا۔
محترم تنویر صاحب 3؍ستمبر 1931ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ 1945ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ فرقان بٹالین میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 1953ء میں جامعۃالمبشرین سے شاہد کی ڈگری لی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا۔ 12؍اپریل 1956ء کو عربی کی مزید تعلیم کے لئے ربوہ سے روانہ ہوئے اور الازھر یونیورسٹی قاہرہ (مصر) سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے 21؍جولائی 1962ء کو واپس تشریف لائے۔ مصر آپ نے عربی ادب میں ایم۔اے کیا اور آپ کے تحقیقی مقالہ پر آپ کو طلائی تمغہ دیا گیا۔ آپ پہلے پاکستانی تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
آپ کی شادی محترم کیپٹن ڈاکٹر محمد رمضان صاحب آف سری گوبندپور کی صاحبزادی مکرمہ طاہرہ تنویر صاحبہ سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے تعلیم قادیان میں حاصل کی تھی لیکن احمدی نہیں تھے۔ جب وہ واپس جانے لگے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اُن سے پوچھا کہ کیا اُن پر احمدیت کی صداقت ابھی منکشف نہیں ہوئی۔ جواب نفی میں ملا تو حضرت میاں صاحبؓ نے فرمایا کہ صرف ایک رات اَور ٹھہر جائیں۔ چنانچہ اُسی رات اُنہیں خواب آیا اور اگلے روز ہی وہ احمدی ہوگئے۔ وہ اپنے خاندان میں واحد احمدی تھے اور بہت دعاگو اور بزرگ شخصیت تھے۔
محترم قریشی صاحب مصر سے واپسی پر جامعہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے جہاں تا دم آخر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ ناظم الامتحانات، سپرنٹنڈنٹ ناصر ہوسٹل، صدر شعبہ عربی، نائب پرنسپل اور قائمقام پرنسپل بھی رہے۔ نیز دارالقضاء کے قاضی اور سولہ سال تک اپنے محلہ کے صدر بھی رہے۔ خدام الاحمدیہ کے مرکزی عہدوں بشمول نائب صدر دوم پر بارہ سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ جلسہ سالانہ کے لئے سالہا سال ناظم اجرائے پرچی خوراک رہے۔ بہت محنت اور لگن سے اپنے فرائض انجام دینے کے عادی تھے اور بہت زیرک، معاملہ فہم اور دھیمے مزاج کے حامل تھے۔ 6؍فروری 2001ء کو لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے پرنسپل جامعہ احمدیہ کے نام فیکس میں فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ جماعت کو اس بے لوث، شریف النفس خادم دین کا نعم البدل عطا فرمائے‘‘۔
محترم چودھری محمد صدیق صاحب سابق لائبریرین خلافت لائبریری کا بیان ہے کہ محترم قریشی صاحب کو نفس مطمئنہ ملا ہوا تھا۔ لمبی آخری بیماری میں بھی گھبراہٹ یا مایوسی کا اظہار کرنے کی بجائے یہی کہا کہ مَیں بالکل مطمئن ہوں۔