محترم ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2011ء میں مکرمہ و۔ن صاحبہ نے اپنے والد محترم ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جنہیں 1974ء میں نامعلوم شرپسندوں نے سرگودھا میں گولیوں کا نشانہ بنایا اور بعدازاں آپ زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔

آپ 20؍اکتوبر 1910ء کو مڈھ رانجھا ضلع سرگود ھا میں حضرت حکیم سرا ج الدین صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے جنہو ں نے 1904ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی اور اپنے وقت کے علماء میں آپؓ کا شمار ہوتا تھا۔ محترم ماسٹر صاحب کی والدہ کا نام صا لحہ بی بی تھا ۔
محترم ماسٹر صاحب نے سات سال کی عمر میں قرآ ن کریم نا ظرہ پڑھا۔ اس کے بعد ترجمۃالقرآن کے ساتھ اپنے والدمحترم کے مشکوٰۃالشریف کے درس میں شامل ہوتے رہے۔ گھر میں بہت دینی ماحول تھا۔ نماز باجماعت اور قرآن کریم کو تدبّر سے پڑھنے پر خاص زور دیا جاتا۔ نماز میں غیرحا ضری کی صورت میں سزا بھی دی جاتی۔
1924ء میں محترم ما سٹر ضیا ء الدین ارشد صاحب اور آپ کے بڑے بھائی مکرم راجہ زین العا بدین صاحب نے مڈل پاس کیا اور دونوں کو اپنے قصبہ مڈھ رانجھا کے مڈل سکول میں مدرس لگالیا گیا۔ 1928ء میں ماسٹر ضیا ء الدین ارشد صاحب نے S.V. کا امتحان پاس کیااور 1935ء میں ادیب عالم کا امتحان بھی پاس کیا۔ بعد میں آپ کے چھوٹے بھا ئی مکرم راجہ بشیرالدین صاحب بھی بطور مدرس سکول میں پڑھانے لگے اور آپ تینوں بھائیوں کی بدولت ہی قصبہ مڈھ رانجھا میں احمدیت متعارف ہوئی۔
محترم ماسٹر صاحب کی شادی 31مئی1930ء کو مکرم شیخ عبد الحمید وہرہ صاحب آف چنیو ٹ کی بیٹی ہا جرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔
محترم ماسٹر صاحب کو بچوں کی تعلیم کا بہت خیال تھا۔ چنانچہ 1935ء میں آپ نے احمدی بچیوں کو بھی اپنے سکول میں ایک کلاس جاری کرکے خود تعلیم دینا شروع کی۔ بعد میں غیراز جماعت بچیاں بھی اس کلاس میں آنے لگیں اور دو سال میں کلاس کی تعداد 40 تک پہنچ گئی۔ اس پر محکمہ تعلیم نے ایک استانی کا تقرر کرکے بچیوں کا سکول بھی تیسری تک جاری کردیا۔
محترم ماسٹر صاحب نے 22سال تک مڈھ رانجھا کے سکول میں ملازمت کی اور جب تعلیم الاسلام ہا ئی سکول چنیوٹ میں آگیا تواس میں منتقل ہوگئے۔ پچاس سال کی عمر میں موتیابند کی وجہ سے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ پھر دو سال آنکھوں کے آپریشن میں صَرف ہوگئے۔ بعد ازاں ایک سال تک ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ میں بطور کارکن کام کیا۔ اس کے بعد 1967ء میں محمودآ باد سٹیٹ سندھ میں بطور ہیڈماسٹر ملازم ہوئے۔ 1971ء میں شدید ملیریا بخار میں مبتلا ہونے کے باعث آپ کی قوّت سماعت بہت کمزور ہو گئی جو آخری عمر تک رہی۔
بے شمار بچوں کو دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ قرآن کریم پڑھانے کی توفیق بھی آپ نے پائی۔ 1958ء میں محلہ دارالبرکات کی مسجد آپ کی زیرنگرا نی تیار ہو ئی۔ یہاں پندرہ سال زعیم انصاراللہ بھی رہے۔ پھر محمودآباد میں صدر جماعت اور صدر مو صیان رہے۔ نیز کئی سال تک نما ئندہ مجلس مشاورت کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
آپ باقاعدہ نماز تہجد ادا کرنے والے اور بہت گریۂ و زاری سے دعائیں کرنے والے بزرگ تھے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے۔ گھر کے کاموں میں اہلیہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ 1974ء کے فسادات میں کئی بے گناہ احمدیوں کو اسیرراہ مولیٰ بننے کی سعادت ملی جن میں آپ کے ایک بیٹے نعیم احمد ظفر صاحب اور ایک نواسہ اشرف علی صاحب بھی شامل تھے۔ یہ سب اسیران سرگودھا جیل میں تھے جنہیں مختلف اذیتیں پہنچا ئی جاتی رہیں ۔ ربوہ سے لوگ گروپس کی صورت میں اپنے رشتہ دا ر قیدیوں کو ملنے جاتے اور انہیں کھانے پینے کی اشیاء، صا بن اور کپڑے وغیرہ دے کر آتے۔ قریباً ایک ماہ اسیری کو گزر گیا تو آپ بھی اپنے بیٹے اور نواسے کو ملنے کیلئے ایک وفد میں شامل ہوکر ریل گاڑی میں سرگودھا گئے۔ جب یہ وفد واپس ربوہ آنے کے لئے سرگودھا ریلوے سٹیشن پہنچا تو وہاں نامعلوم نقاب پوشوں نے احمدی قافلہ پر فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں 9؍افراد زخمی ہوئے۔ آپ کے سر پر بھی گولی لگی۔ فائرنگ رُکی تو باقی احمدیوں نے زخمیوں کو اٹھاکر گاڑی میں ڈالا۔ لیکن پولیس نے کہا کہ جب تک رپورٹ درج نہیں ہوجاتی اُس وقت تک زخمیوں کو نہیں لے جاسکتے۔ چنا نچہ زخمیو ں کو گاڑی سے نیچے اتارا گیا اور جو زیادہ زخمی تھے انہیں سرگودھا ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ آپ بھی تقریباً تین ہفتے سرگودھا کے ہسپتال میں رہے پھر لاہور کے جنرل ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ لیکن ڈاکٹر آپ کے سر میں سے گولی نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ چنانچہ کچھ عر صہ بعد آ پ کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں منتقل کر دیا گیا جہاں 29ستمبر 1974ء کو آپ نے شہادت پائی۔ آپ ربوہ کے پہلے شہید تھے۔
آپ مو صی تھے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ اور آپ کی اہلیہ بھی شامل ہیں ۔ غضّ بصر انتہا درجہ کا تھا۔ سکول کے طلباء میں فرشتہ کے نام سے مشہور تھے۔ ہمیشہ اسوئہ رسولؐ پر عمل پیرا رہے۔ تعلق باللہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ میرے (مضمون نگار کے) بیٹے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا نام امتیاز احمد رکھ دیا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو اس کا نام حضور سے رکھوانا ہے۔ تو آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو نام کے لیے خط لکھ دیا۔ جب جواب آیا تو حضورؒ نے بھی اس کا نام امتیاز احمد ہی تجویز فرمایا تھا۔
آپ شاعر بھی تھے۔ فارسی زبان پر عبور حاصل تھا اور درثمین فارسی اکثر مطالعہ میں رکھتے تھے۔ آپ کی پانچ بیٹیاں اور چھ بیٹے تھے۔

مکرم ہادی علی چودھری صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا آپ کے نواسے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں