محترم ماسٹر یعقوب علی صاحب
محترم ماسٹر یعقوب علی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے آپ کے فرزند مکرم منظور احمد صاحب درویش قادیان ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 6؍دسبمر 1997ء میں رقم طراز ہیں کہ محترم ماسٹر صاحب جنوری 1903ء میں گھنوکے ججہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرواکے آپ کو ریلوے میں ملازم کروادیا گیا لیکن آپ کو وہاں کا ماحول پسند نہ آیا چنانچہ جلد ہی ملازمت چھوڑ دی اور پھر ٹیچر ٹریننگ کا امتحان پاس کرکے بطور استاد ملازمت شروع کردی۔ آپ بہت پرہیزگار اورمتقی تھے۔ سکول میں درس و تدریس کرتے اور گھر پر بھی قرآن کریم پڑھاتے۔ عاشق احمدیت تھے۔ ہر آمد پر پہلے چندہ ادا کرتے۔ چھوٹی عمر میں ہی وصیت کرنے کی توفیق پائی۔ آپ کی ایک بہن کے شوہر نے احمدیت چھوڑ دی تو آپ نے اس قدر غیرت کا مظاہرہ کیا کہ زندگی بھر اپنے بہنوئی سے نہیں ملے اور بہن سے بھی دور رہے۔ جماعتی طور پر جو بھی تحریک کی جاتی آپ گرمجوشی کے ساتھ لبیک کہتے۔ تحریک جدید کے دفتر اول کے پنج ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ 1947ء تک ہر سال جلسہ سالانہ پر تشریف لاتے رہے اور مجلس مشاورت کا نمائندہ بن کر شرکت کرتے رہے۔ اپنی جماعت کے امام الصلوٰۃ اور خطیب رہے، صدر اور سیکرٹری مال کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
محترم ماسٹر صاحب کی خواہش تھی کہ آپ کی ساری اولاد خادم دین بنے۔ چنانچہ جب مضمون نگار نے مڈل پاس کیا تو آپ نے انہیں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کروادیا اور جب کئی سال بحیثیت مبلغ خدمات انجام دینے کے بعد مضمون نگار نے اپنی بعض شدید پریشانیوں کے باعث واپس وطن جاکر رہنے کا فیصلہ کیا اور اس بارے میں اپنے والد محترم کو خط لکھا تو محترم ماسٹر صاحب کا جو جواب آیا وہ ایک سچے فدائی کا جواب تھا کہ’’… بے شک آجائیں، آکر زراعت کریں یا تجارت کریں مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جہاں چاہیں جائیں اور جہاں چاہیں رہیں میرے پاس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ …‘‘ ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت تک باپ بیٹے کو دین کی خاطر جدا ہوئے چودہ برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔
محترم ماسٹر یعقوب علی صاحب نے 24؍ستمبر 1997ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔