محترم محمد الدین صاحب درویش

ش ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم وحید الدین شمس صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم محمدالدین صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
محترم محمدالدین صاحب کی پیدائش 1920ء میں قادیان کے قریب سیکھواں گاؤں میں مکرم میاں عمرالدین صاحب (ابن حضرت میاں فتح الدین صاحبؓ) کے ہاں ہوئی۔ آپ کی ایک بڑی بہن اور دو چھوٹے بھائی تھے۔ آپ کی عمر صرف 15سال تھی کہ والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے۔
1936ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے احمدی نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے ارشاد فرمایا تو آپ نے بھی لبّیک کہا۔ 1942ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔1946ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ایک ارشاد کی بِنا پر ملازمت ترک کرکے خود کو حفاظتِ مرکز کے لئے پیش کردیا۔ اس پر دفتر سے پانچ روپے ماہوار وظیفہ لگادیا گیا اور کہا گیا کہ فی الحال اپنا کام کرتے رہیں اور جب ضرورت ہوگی بلا لیا جائے گا۔ آپ کو ملازمت چھوڑتے وقت پانچ صد روپے ملے تھے۔ اس رقم سے آپ نے سائیکلوں کی دکان کھول لی۔ لیکن جلد ہی تقسیمِ ہند ہوگئی اور آپ ڈیوٹیوں میں مشغول ہوگئے۔ آپ کی شادی 1945ء میں مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ دختر مکرم مستری ناظردین صاحب سے ہوئی تھی۔ اپریل 1947ء میں آپ کا پہلا بیٹا حمیدالدین شمس (بعد میں مبلغ و مناظر بنے) پیدا ہوا۔ تقسیم ہند کے وقت آپ کی اہلیہ بیٹے کو لے کر پاکستان چلی گئیں اور 1952ء میں قادیان واپس آسکیں ۔ آپ کے کُل چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں ۔ مکرم مولانا حمیدالدین شمس صاحب کی وفات 47سال کی عمر میں دسمبر 1995ء میں ہوئی۔ ان کی وفات کا آپ کو بہت صدمہ ہوا۔ ان کی وفات کے صرف سوا سال کے بعد ہی آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ کے ایک بیٹے نصیرالدین قمر صاحب سلسلہ کی خدمت سے ریٹائر ہیں ۔ دوسرے بیٹے مکرم رشیدالدین پاشا صاحب لمبا عرصہ صدرعمومی قادیان رہے۔ اور خاکسار وحیدالدین شمس نگران دارالمسیح کے طور پر جماعت کی خدمت کی توفیق پارہا ہے۔ آپ کے بڑے داماد مکرم سید عبد النقی صاحب زونل امیر بہار ہیں جبکہ چھوٹے داماد نظارت امورعامہ میں خدمت کررہے ہیں ۔
محترم محمدالدین صاحب نے زمانہ درویشی بڑے صبر و ہمت کے ساتھ گزارا۔ ساری عمر نظارت تعمیرات میں کام کیا۔ خود بھی اچھے مستری تھے ۔ لہٰذا طویل عرصہ جماعتی تعمیرات کی نگرانی کی خدمت کی توفیق پائی۔ قادیان میں کئی پرانی عمارتیں آپ کی یادگار ہیں ۔ ایوانِ انصارکی تعمیر کا کام بھی آپ کروا رہے تھے کہ اسی دوران وفات ہوگئی۔
زمانہ درویشی میں دفتری کام کے بعد غیرمسلم علاقوں میں اوورٹائم لگا کر گھریلو اخراجات کو پورا کرتے لیکن جو بھی آمد ہوتی اس پر چندہ دینا نہ بھولتے۔ بڑے صابر شاکر، خاموش طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔ تعمیراتی کاموں میں سلسلہ کے اموال کو بڑی ایمانداری سے خرچ کرتے۔ غیرمسلم تاجر بھی آپ کی ایمانداری کی گواہی دیتے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند۔ سخت بیماری کی حالت میں بھی فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت ضرور کرتے۔ ہمیشہ نظریں جھکی رہتیں ۔ کبھی اُونچی آواز میں بات نہ کرتے۔ نظام جماعت اور خلیفہ وقت کے وفادار رہنے کی نصیحت کرتے رہتے۔ خلیفۂ وقت کی دعاؤں پر بہت یقین تھا۔ آپ کی وفات 31مارچ1997ء کو ہوئی۔ آپ کے جنازہ میں کثرت سے غیر مسلم احباب بھی شریک ہوئے ۔
اپنے شاگردوں سے بِلاتفریق مذہب بہت شفقت کا سلوک کرتے۔ آج بھی یہ شاگرد آپ کے احسانات کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔ ٹھیکہ پر زمین بھی لیتے تھے۔ جب جنس گھر آتی تو اس میں سے خاکروبہ، غریب مزدوروں اور شاگردوں کو بھی حصہ دیتے۔ وفات تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں